خلاصہ: جناب ذوالقرنین اللہ کے ایک نیک بندہ تھے. خداوند عالم نے ان پر بہت زیادہ لطف و کرم کیا اور قرآن و توریت میں ان کے صفات کو بھی بیان کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذوالقرنین کا اصلی نام(عیاش) تھا، وہ حضرت نوح کے بعد پہلے حاکم تھے جنھوں نے شرق اور غرب میں حکومت کی، وہ اللہ کی جانب سے بھیجے ہوئے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک نیک بندہ تھے جن پر خداوند عالم کا لطف و کرم نازل ہوا، ذوالقرنین ایک حاکم تھے جو خدا کی جانب سے مبعوث کئے گئے تھے اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے[۱]۔
خداوند عالم سورۂ کہف میں جناب ذولقرنین کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: اور اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب تمہارے سامنے ان کا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا، ہم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا اور ہر شیٔ کا ساز و سامان عطا کردیا، پھر انہوں نے ان وسائل کو استعمال کیا، یہاں تک کہ جب وہ غروب آفتاب کی منزل تک پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک کالے کیچڑ والے چشمہ میں ڈوب رہا ہے اور اس چشمہ کے پاس ایک قوم کو پایا تو ہم نے کہا کہ تمہیں اختیار ہے چاہے ان پر عذاب کرو یا ان کے درمیان حسن سلوک کی روش اختیار کرو، ذوالقرنین نے کہا کہ جس نے ظلم کیا ہے اس پر بہرحال عذاب کروں گا یہاں تک کہ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں پلٹایا جائے گا اور وہ اسے بدترین سزا دے گا، اور جس نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا ہے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور میں بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہوں گا، اس کے بعد انہوں نے دوسرے وسائل کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب طلوع آفتاب کی منزل تک پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع کررہا ہے جس کے لئے ہم نے آفتاب کے سامنے کوئی پردہ بھی نہیں رکھا تھا، یہ ہے ذوالقرنین کی داستان اور ہمیں اس کی مکمل اطلاع ہے، اس کے بعد انہوں نے پھر ایک ذریعہ کو استعمال کیا، یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچ گئے تو ان کے قریب ایک قوم کو پایا جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی، ان لوگوں نے کسی طرح کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج و ماجوج زمین میں فساد برپا کررہے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم آپ کے لئے اخراجات فراہم کردیں اور آپ ہمارے اور ان کی درمیان ایک رکاوٹ قرار دیدیں، انہوں نے کہا کہ جو طاقت مجھے میرے پروردگار نے دی ہے وہ تمہارے وسائل سے بہتر ہے اب تم لوگ قوت سے میری امداد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں، چند لوہے کی سلیں لے آؤ یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے برابر ڈھیر ہوگیا تو کہا کہ آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنادیا تو کہا آؤ اب اس پر تانبا پگھلا کر ڈال دیں، جس کے بعد نہ وہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اس میں نقب لگا سکیں، ذوالقرنین نے کہا کہ یہ پروردگار کی ایک رحمت ہے اس کے بعد جب وعدہ الٰہی آجائے گا تو اس کو ریزہ ریزہ کردے گا کہ وعدہ رب بہرحال برحق ہے[۲]۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو ذوالقرنین کی داستان کو بیان کیا گیا ہے اس چند خصوصتوں کو اخذ کیا جاسکتا ہے:
پہلی خصوصیت: جس کے بارے میں یہ داستان بیان کی گئی ہے ان کا نام پہلے ہی سے رکھا جاچکا تھا اور یہ بات لوگوں کے سوال اور خدا نے اس کے بعد جو بیان کیا ہے اس کے ذریعہ واضح ہے
دوسری خصوصیت: دوسری خصویت یہ ہے ذوالقرنین ایک مؤمن اور متدیّن شخص تھے جس کے بارے میں قرآن میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي؛ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ پروردگار کی ایک رحمت ہے اس کے بعد جب وعدہ الٰہی آجائے گا»، اور اسی طرح اسی سورہ کی دوسری آیات میں بھی خدا نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایاہے، خدا نے ذوالقرنین کو پورا اختیار دے رکھا تھا جو ان کی کرامت اور مقام و منزلت کو بتانے کے لئے ایک دلیل ہے، اس بات سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان پر یا وحی ہوتی تھے یا الھام ہوتا تھا یا کسی دوسرے پیغمبر کے ذریعہ ان کی مدد کی جاتی تھی۔
تیسری خصوصیت: وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدا نے دنیا اور آخرت کا خیر عطاء فرمایا تھا، خیر دنیا اس اعتبار سے کہ ان کو ایک ایسی سلطنت عطاء کی گئی تھی کہ جس کے ذریعہ وہ مغرب سے لیکر مشرق تک حکومت کی اور کوئی بھی چیز اس سے ان کو روکنے والی نہیں تھی بلکہ تمام چیزوں پر ان کو خدا نے اختیار دے رکھا تھا، اور آخرت اس اعتبار سے کہ انھوں نے عدالت کو پھیلایا اور لوگوں میں حق کو قائم کیا اور اسی طرح بہت سے نیک کاموں کو رائج کیا جس کی وجہ سے آخرت میں ان کا ایک خاص مقام ہوگا۔
چوتھی خصوصیت: مغرب میں جو لوگ ظالم تھے ان پر عذاب کو نازل کیا[۳]۔
توریت میں بھی ذوالقرنین کے لئے تقریبا یہی اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن اور توریت میں ذوالقرنین کو لیکر ارتباط اس لئے پایا جاتے ہے کیونکہ یھودیوں نے ذوالقرنین کے بارے میں توریت میں پڑھ رکھا تھا کہ وہ کن صفات کے مالک تھے انھوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو رسوا اور ذلیل کرنے کے لئے سوال کیا یا قریش کے ذریعہ سوال کروایا تاکہ رسول خدا(صلی اللہ علی و آلہ و سلم) اس سوال کے ذریعہ مشکل میں پڑھ جائے اور ان کو جھٹلایا جائے اور آپ کی نبوت کو مخدوش کیا جائے، خداوند عالم نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دفاع کے لئے ان آیات کو نازل کیا اور یھودیوں کو ایک بار پھر شکست کا سامنہ کرنا پڑا، یہاں پر یہ بات تہ طے ہوچکی ہے کے قرآن مجید اور توریت میں ذولقرنین کے اوصاف ایک ہی بیان کئے گئے ہی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کے ذولقرنین کون تھے؟
توریت میں ذوالقرنین کا مصداق واضح ہے کہ وہ پارس کے ایک بادشاہ تھے، اور بہت زیادہ محققین اور مفسرین بھی اسی نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ توریت اور قرآن دونون کے ذوالقرنین ایک ہی ہیں[۴]۔
نتیجہ:
اس مقالہ میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جناب ذوالقرنین اللہ کے ایک نیک اور صالح بندہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] داستان پیامبران، ص ۸۳.۱ - حیوة القلوب، علامه مجلسی، ج۱، ص۴۳۹؛ تفسیر عیاشی، ج۲، ص۳۵۰. http://www.hawzah.net/fa/Book/View/45327/35676
[۲] سورۂ کہف، آیات:۸۳ سے ۹۸ تک۔
[۳] علامہ طباطبائی، ترجمہ تفسری المیزان، صص ۵۲۲ اور ۵۲۳، دفترانتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۳۷۴ش۔
[۴] https://rasekhoon.net/article/show/122472
Add new comment