حضرت شیث(علیہ السلام)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت شیث(علیہ السلام) حضرت آدم(علیہ السلام) کے بعد دوسرے بنی تھے، اور آپ ہی ذریعہ انسان کی نسل آگے پڑھی۔

حضرت  شیث(علیہ السلام)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     ھابیل کے قتل ہونے کے بعد خداوند عالم نے حضرت آدم(علیہ السلام) اور حوا کو پچاس سال کے بعد حضرت شیث(علیہ السلام) کی شکل میں اولاد عطا کی[۱] جو حضرت شیث(علیہ السلام) سے مشھور ہیں اور جس کا نام " ہبۃ  اللہ" رکھا گیا[۲]، بعض منابع میں نقل ہوا ہے کہ حضرت شیث(علیہ السلام) جڑوا پیدا ہوئے تھے ان کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام "عزورا" تھا[۳]،  حضرت شیث(علیہ السلام) سے حضرت آدم(علیہ السلام) بہت محبت کیاکرتے تھے[۴]۔
     جب حضرت آدم(علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت شیث(علیہ السلام) کو بلوایا اور فرمایا: بیٹا تم جو کچھ دیکھ رہے ہو خدا نے اپنی قدرت کے ذریعہ ہمیں عطا فرمایا ہے اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اپنا جانشین مقرر کروں اور اسکی امانتوں کو تمھارے حولے کروں، میرے سر کے نیچے میرا وصیت نامہ ہے جس میں حکمت(أَثَرُ الْعِلْمِ) اور اسم اعظم ہے جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں تو اسے لے لو اور کسی کو اس کے بارے میں اطلاع نہ دینا اس وقت تک جب تک تم پر بھی میری طرح کا وقت نہ آجائے اس وقت یہ کس کو دینا ہے اس میں غور اور فکر کرنا، اس میں ان تمام مسائل جس کی تمھیں ضرورت ہوگی چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی سب موجود ہے۔
     پھر حضرت آدم(علیہ السلام) نے فرمایا کہ بیٹا مجھے یہ خواہش ہورہی ہے کہ میں جنت کے میوے کو کھاؤ تم پہاڑ پر جاؤ اور جو بھی فرشتہ تمھیں دکھے اس سے کہو: میرے والد مریض ہے اور آپ سے  کہرہے  ہیں کہ انھیں جنت کے میوے ہدیہ کریں، حضرت شیث(علیہ السلام) پہاڑ پر جانے لگے راستہ میں جناب جبرئیل(علیہ السلام) کو فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ  دیکھا، جناب جبرئیل(علیہ السلام) نے حضرت شیث(علیہ السلام) کو سلام کیا اور  پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں؟ حضرت شیث(علیہ السلام) نے  پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جناب جبرئیل(علیہ السلام) نے فرمایا: میں روح الأمین جبرئیل ہوں، حضرت شیث(علیہ السلام) نے فرمایا: میرے والد نے آپ کو سلام کہا ہے اور کچھ جنت کے میوں کی درخواست کی ہے، جناب جبرئیل(علیہ السلام) نے فرمایا: آپ کے والد پر سلام ہو! اے شیث(علیہ السلام) آپ کے والد اس دنیا سے گذر چکے ہیں! اس کے بعد دونوں ملکر حضرت آدم(علیہ السلام) کے جنازے پر آئے[۵]۔
     امام صادق(علیہ السلام) سے روایت نقل کی گئی ہے: «جس وقت حضرت آدم(علیہ السلام) کا انتقال ہوا اور جب نماز پڑھنے کا وقت آیا تو حضرت شیث(علیہ السلام) نے جناب جبرئیل(علیہ السلام) سے کہا کہ آپ سامنہ آئیے اور اللہ کے نبی کی نماز پڑھائیے، جناب جبرئیل نے کہا: خدا نے ہمیں آپ کے والد کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ہم ان کی اولاد پر سبقت نہیں لینگے اور آپ ان کے بہترین فرزند ہے»[۶]۔
     تاریخی اعتبار سے حضرت شیث(علیہ السلام) حضرت آدم(علیہ السلام) کے جانشین ہوئے[۷]،  اس کے علاوہ بعض روایتوں کے اعتبار سے انسان کی نسل بھی حضرت شیث(علیہ السلام) کے ذریعہ ہی آگے پڑھی اس اعتبار سے دنیا کے تمام انسان آپ کی نسل سے ہیں[۸]۔
     جناب جبرئیل(علیہ السلام)، حضرت شیث(علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہوئے  فرماہے ہیں: « کون آپ کی طرح ہے اے شیث(علیہ السلام) خداوند متعال نے آپ کو ایک مخصوص اور باعظمت کام کے لئے انتخاب فرمایا اور آپ کو کرامت عطا فرمائی اور آپ کو عافیت کے لباس سے آراستہ کیا»[۹].
     تاریخی منابع کے اعتبار سے حضرت آدم(علیہ السلام) کے پاس جنت سے صحیفے آتے تھے[۱۰] جو مقدس کتاب کا حکم رکھتے تھے[۱۱] اور حضرت شیث(علیہ السلام) پر بھی پچاس(۵۰) صحیفے نازل ہوئے[۱۲]، حضرت شیث(علیہ السلام) ان صحیفوں اور جو کتابیں حضرت آدم(علیہ السلام) کی تھیں ان ہی کی بناء پر لوگوں کے درمیان حکم دیا کرتے تھے[۱۳]۔
     حضرت شیث(علیہ السلام) نوسو بارہ(۹۱۲) سال کی عمر میں  انتقال فرما گئے[۱۴]، آپ  کے بعد آپ کی اولاد جس کے نام انوش،قینان، مہلائیل، یرد اور اخنوخ تھے وہ  موجود تھے[۱۵]
نتیجہ:
     حضرت شیث(علیہ السلام) حضرت آدم(علیہ السلام) کے بعد اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندہ تھے جو اللہ کی بھیجی ہوئے کتابوں کے ذریعہ لوگوں میں حکم دیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق ابراهیم، محمد أبو الفضل، ج۱، ص۱۵۲، بیروت، دارالتراث، دوسری چاپ، ۱۳۸۷ق.
[۲] عوتبى صحارى، سلمه بن مسلم‏، الأنساب، مصحح، احسان‏، محمد، ج۱، ص۳۹، عمان، وزارة التراث القومی و الثقافة، چوتھی چاپ، ۱۴۲۷ق.‏
[۳] ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی‏، المنتظم،‏ محقق، عطا، محمد عبدالقادر، عطا، مصطفی عبدالقادر، ج۱، ص۲۱۸، بیروت، دارالکتب العلمیة، پہلی چاپ، ۱۴۱۲ق
[۴] ابن قتیبة، عبدالله بن مسلم، المعارف، ص۲۰، قاهره، الهیئة المصریة العامة للکتاب، دوسری چاپ، ۱۹۹۲م.
[۵] قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، قصص الأنبیاء(علیہم السلام)، محقق، عرفانیان یزدی، غلامرضا، ص۵۶، مشهد، مرکز پژوهش های اسلامی، پہلی چاپ، ۱۴۰۹ق.
[۶] شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق، غفاری، علی اکبر، ج۱، ص۱۶۳، قم، دفتر انتشارات اسلامی، دوسری چاپ، ۱۴۱۳ق؛ شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، محقق، موسوی خرسان، حسن، ج۳، ص۳۳۰، تهران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
[۷] مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج۳، ص۱۱، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا؛ ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۷، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق؛ أبوالقاسم ختلی، إسحاق بن إبراهیم، کتاب الدیباج، محقق، إبراهیم صالح، ج۱، ص۵۷، دارالبشائر، ۱۹۹۴م.
[۸] صالحی دمشقی‏، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، ج۱، ص۳۲۰، بیروت، دارالکتب العلمیة، پہلی چاپ، ۱۴۱۴ق.
[۹] قطب الدین راوندی، سعید بن عبدالله، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۹۲۲، قم، مؤسسه امام مهدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)، پہلی چاپ، ۱۴۰۹ق.
[۱۰] شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص۱۷۹، نجف، مطبعة حیدریة، پہلی چاپ، بی‌تا.
[۱۱] قصص الأنبیاء(علیہم السلام)، ص۵۵.
[۱۲] شیخ صدوق، خصال، محقق، غفاری، علی اکبر، ج۲، ص۵۲۴، قم، دفتر انتشارات اسلامی، پہلی چاپ، ۱۳۶۲ش؛ محمد بن حبان، أبوحاتم، صحیح ابن حبان، محقق، شعیب الأرنؤوط، ج۲، ص۷۶، بیروت، مؤسسة الرسالة، دوسری چاپ، ۱۴۱۴ق.
[۱۳] مسعودی، ابوالحسن علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق، داغر، اسعد، ج۱، ص۴۸، قم، دارالهجرة، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
[۱۴] یعقوبی، احمد بن أبی‌یعقوب‏، تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۸، دارصادر، بیروت، پہلی چاپ، بی‌تا.
[۱۵] الأنساب، ج۱، ص۴۲.

منبع:  http://www.islamquest.net/fa/archive/question/fa75839

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 85