خلاصہ: بنی امیہ وہ گروہ ہے جس نے حقیقی اسلام سے لوگوں کو دور رکھا اور یہ وہ گروہ ہے جس کو قرآن نے شجرۂ ملعونہ سے یاد کیا اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان پر لعنت بھیجی ہے اور اس طریقہ کی روایتیں اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنی امیہ کا ظہور جزیرہ نمائے عرب کے شمال اور مرکز میں شہر نشینی کے آغاز اور کم و بیش ظہور اسلام کے ساتھ ہم عصر ہے، اس خاندان کی تشکیل کی کیفیت مبہم ہے لیکن بنو ہاشم کے ساتھ اس کی دشمنی اور مسابقت اذہان پر غالب ہے۔
امیہ عبدالشمس ابن عبد مناف کے چند بیٹوں میں سے ایک تھا چنانچہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کا نسب عبد مناف سے جاملتا ہے اور عبدمناف ان دونوں خاندانوں کے مورث ہیں، امویوں کے جد کو امیۂ اکبر کہا جاتا تھا؛ کیونکہ اس کا ایک چھوٹا بھائی بھی امیہ نام کا تھا جس کو امیہ اصغر کہا جاتا تھا[۱]۔
شیعہ تفاسیر اور روایتوں کے اعتبار سے شجرۂ ملعونہ کا اطلاق بنی امیہ پر ہوتا ہے، اہل سنت کی بھی بعص روایتوں میں بنی امیہ کو شجرۂ ملعونہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ میں اہل سنت کی بعض روایتوں کو نقل کیا جارہا ہے جس میں بنی امیہ کو شجرۂ ملعونہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خواب میں دیکھا کہ کچھ بندر آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں اور اتر رہے ہیں، رسول خدا پریشان ہوگئے کہ آپ کی عمر کے ختم ہونے تک یہ لوگ اپنی پہلی والی حالت پر نہ لوٹ جائیں، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: «وَ ما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن[سورهٔ اسراء، آیت:۶۰] اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے »[۲]۔
اہل سنت کے مشھور عالم دین فخر رازی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: شجرۂ ملعونہ حکم ابن عاص ہے، اور پیغبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خواب میں مروان اور حکم کو ایک کے بعد ایک منبر پر جاتے ہوئے دیکھا[۳]۔
مجمع الزوائد میں نور الدین لکھتے ہیں: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بنی امیہ اور بنی حنیفہ کو سب سے زیادہ ناپسند کرتے تھے[۴]۔
حاکم نیشاپوری لکتھے ہیں: جب بھی کوئی بچہ دنیا میں آتا اس کو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لیکر جاتے تاکہ آپ اس بچہ کے لئے دعا فرمائیں، جب مروان ابن حکم پیدا ہوا تو اسے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے دعا نہیں کی اور فرمایا: وہ ملعون ہے اور میری امت کی نابودی اس کے اور اس کی اولاد کے وجہ سے ہوگی[۵]۔
ان احادیث کو دیکھنے کے بعد یہ پوری طرح سے واضح ہوجاتا ہے کہ بنی امیہ شجرۂ ملعونہ کے مصداق ہیں۔ خدا ہم سب کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت(علیہم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
...........................................
حوالے:
[۱] http://ur.wikishia.net/view/ بنو_امیہ
[۲] « وروى عبد المهيمن عن بن عبّاس عن سهل بن سعد عن أبيه عن جده قال: رأى رسول الله صلّى الله عليه وسلّم بني أمية ينزون على منبره نزو القردة فساءه ذلك فما استجمع ضاحكا حتّى مات، فأنزل الله في ذلك وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ المذكورة فِي الْقُرْآنِ يعني شجرة الزقوم »۔ أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي، أبو إسحاق، الكشف والبيان عن تفسير القرآن، ج6، ص۱۱۱، تحقيق: امام أبي محمد بن عاشور، دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان، ۱۴۲۲. محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۳۱، ص۵۳۶، ۱۴۰۳ق.
[۳] أبو عبد الله محمد بن عمر ،فخر رازي ،تفسير كبير، ج۲۰،ص۳۶۰، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۲۰ھـ
[۴] «كَانَ أَبْغَضَ النَّاسِ أَوْ أَبْغَضَ الْأَحْيَاءِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثَقِيفٌ، وَبَنُو حَنِيفَةَ». رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو يَعْلَى، وَزَادَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: بَنُو أُمَيَّةَ، وَثَقِيفٌ، وَبَنُو حَنِيفَةَ، وَكَذَلِكَ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُمْ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَهُوَ ثِقَةٌ»۔ أبو الحسن نور الدين الهيثمي ، مجمع الزوائد، هیثمی، ج۱۰، ص۷۱، محقق: حسام الدين القدسي، مكتبة القدسي،۱۴۱۴ھ، ۱۹۹۴م،۔
[۵] « فَمِنْهَا مَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ حَرَسَهَا اللَّهُ تَعَالَى، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبَّادٍ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَحَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْبَرِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ الْقُشَيْرِيُّ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ الْمُسْتَمْلِي، قَالُوا: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ الْإِمَامُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مِينَاءَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ لَا يُولَدُ لِأَحَدٍ مَوْلُودٌ إِلَّا أُتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا لَهُ فَأُدْخِلَ عَلَيْهِ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، فَقَالَ: «هُوَ الْوَزَغُ بْنُ الْوَزَغِ الْمَلْعُونُ ابْنُ الْمَلْعُونِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»۔ أبو عبد الله الحاكم نيشابوري،المستدرك على الصحيحين ،ج۴،ص۵۲۶، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء، دار الكتب العلمية - بيروت، ۱۴۱۱ھ.
Add new comment