خلاصہ: خدا نے قرآن میں ایک گروہ کو شجرہ ملعونہ سے تعبیر کیا ہے، بہت زیادہ حدیثون کی روشنی میں وہ گروہ بنی امیہ ہے جس کو خدا نے شجرہ معلونہ کہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنی امیہ قبیلۂ قریش کی دو بڑی شاخوں میں سے ہے جن میں سے بعض افراد نے تقریبا ایک صدی تک اسلامی سرزمینوں پر حکومت کی، پہلی صدی ہجری کے بیشتر ایام(حتی اس سے کچھ عرصہ قبل کے سال و ماہ، خلیفہ یا کسی بھی عنوان سے) اس خاندان کے افراد کے ناموں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، بنو امیہ کا دور سن ۴۱،ہجری میں معاویہ کی سلطنت سے شروع ہوا اور سن۱۳۲، ہجری میں مروان ابن محمد کی شکست پر زوال پذیر ہوا، اس عرصہ میں اس خاندان کے ۱۴،افراد نے خلیفہ کے عنوان سے اسلامی ممالک پر حکمرانی کی، معاویہ کے بعد اس کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید جس کے بعد خلافت مروانیوں کو منتقل ہوئی، مروانیوں نے مشرقی سرحدوں نیز روم کی سرحدوں پر جنگیں لڑ لڑ کر اسلامی سرزمین کو ہر روز وسیع سے وسیع تر کیا، شیعیان اہل بیت(علیہم السلام) کی پسپائی بنو امیہ کی دائمی پالیسی کا حصہ رہی، بنو امیہ نے متعدد بار اسلامی مقدسات کی حرمت کو پامال کیا[۱]۔
بہت زیادہ روایتوں میں بنی امیہ کو شجرہ ملعونہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس مقالہ میں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم بعض حدیثوں کو نقل کر رہے ہیں:
۱۔ امام صادق(علیہ السلام) سے روایت منقول ہے کہ: علی(علیہ السلام) نے عمر سے فرمایا: جو بنی امیہ کے بارے میں نازل ہو، کیا میں تمھیں اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمر نے کہا ہاں: امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی«و الشجرة الملعونة فی القرآن؛ اور شجرۂ ملعونہ قرآن میں»، عمر نے کہا: آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں، بنی امیہ آپ سے زیادہ خیر پر ہیں اور آپ سے زیادہ رحم کرنے والے[۲].
۲۔ مرحوم طبرسی نے احتجاج میں روایت کی ہے کہ معاویہ کی مجلس میں مروان ابن حکم نے امام حسن(علیہ السلام) سے کہا: ’’وَ اللَّهِ لَأَسُبَّنَّكَ وَ أَبَاكَ وَ أَهْلَ بَيْتِكَ سَبّاً تَتَغَنَّى بِهِ الْإِمَاءُ وَ الْعَبِيد؛ خدا کی قسم تمھیں اور تمھارے باپ اور تمھارے اہل بیت کو اس طرح گالیاں دونگا کہ غلام اور کنیز اپنے ترانوں میں اسے استعمال کرینگے‘‘،
امام حسن(علیه السلام) نے اس سے فرمایا: میں تجھے اور تیرے باپ دادا کو گالی نہیں دونگا، لیکن خداوند عالم نے تجھ پر اور تیرے باپ دادا اور تیرے خاندان اور تیری اولاد اور جو کوئی تیرے باپ کی اولاد قیامت کے دن تک پیدا ہوگی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زبانی لعنت کی ہے، خدا کی قسم اے مروان اس بات کا انکار، نہ تو کرسکتا ہے اور نہ اس مجلس میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ لوگ کرسکتے ہیں کہ یہ لعنت تجھ پر اور تیرے باپ داد پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زبانی نثار کی گئی ہے، اور خدا اور اس کے رسول صادق ہیں، اللہ تعالی قرآن میں فرمارہا ہے: «وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرآن وَ نُخَوِّفُهُمْ فَمَا یَزِیدُهُمْ إلاَّ طُغْیَانا کَبِیرا[ سورۂ اسراء، آیت:۷]» اور اے مروان قرآن میں تجھے اور تیری اولاد کو شجرہ ملعونہ کہا گیا ہے اور یہ پیغام رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو جبرئیل کی زبانی بھیجا گیا ہے[۳].
۳۔ امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک دن صبح بہت پریشان اور غمگین تھے، آپ سے کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے رات کو دیکھا کے بنی امیہ کی اولاد میرے منبر پر چڑھی ہوئی ہے، میں نے کہا: اے ربّ کیا یہ لوگ میرے ساتھ ایسا کرینگے؟ جواب آیا: نہیں لیکن آپ کے بعد[۴]۔
ان روایتوں کی روشنی میں یہ اچھی طرح سے واضح اور روشن ہوگیا کہ قرآن میں جو شجرۂ ملعونہ کا ذکر ہے اس سے مراد کیا ہے، خدا ہم سب کو رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت(علیہم السلام) کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حولے:
[۱] http://ur.wikishia.net/view/ بنو_امیہ
[۲] « إن علیِّا علیه السلام قال لعمر یا اباحفص، أَلا أُخبرک بما نزل فی بنی امیة؟! قال: بلی، قال: فانّه نزل فیهم «و الشجرة الملعونة فی القرآن»، قال: فغضب عمر و قال: کذبت، بنو امیّه خیرٌ منک و اوصل للرحم»۔ محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي– بيروت، دوسری چاپ، ج۳۰، ص۱۶۵، ۱۴۰۳ق.
[3] «َقَالَ مَرْوَانُ وَ اللَّهِ لَأَسُبَّنَّكَ وَ أَبَاكَ وَ أَهْلَ بَيْتِكَ سَبّاً تَتَغَنَّى بِهِ الْإِمَاءُ وَ الْعَبِيدُ فَقَالَ الْحَسَنُ ع أَمَّا أَنْتَ يَا مَرْوَانُ فَلَسْتُ سَبَبْتُكَ وَ لَا سَبَبْتُ أَبَاكَ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَعَنَكَ وَ لَعَنَ أَبَاكَ وَ أَهْلَ بَيْتِكَ وَ ذُرِّيَّتَكَ وَ مَا خَرَجَ مِنْ صُلْبِ أَبِيكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ وَ اللَّهِ يَا مَرْوَانُ مَا تُنْكِرُ أَنْتَ وَ لَا أَحَدٌ مِمَّنْ حَضَرَ- هَذِهِ اللَّعْنَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص لَكَ وَ لِأَبِيكَ مِنْ قَبْلِكَ وَ مَا زَادَكَ اللَّهُ يَا مَرْوَانُ بِمَا خَوَّفَكَ إِلَّا طُغْياناً كَبِيراً وَ صَدَقَ اللَّهُ وَ صَدَقَ رَسُولُهُ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْياناً كَبِيراً وَ أَنْتَ يَا مَرْوَانُ وَ ذُرِّيَّتُكَ الشَّجَرَةُ الْمَلْعُونَةُ فِي الْقُرْآنِ وَ ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ص عَنْ جَبْرَئِيلَ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل»۔ سيد هاشم بن سليمان بحرانى،البرهان في تفسير القرآن، مؤسسه بعثه - قم، ج۱، ص۲۷۹، ۱۲۷۴ش.
[۴] «اصبح رسول اللّه صلی الله علیه و آله یوما حاسرا حزینا، فقیل له: ما لک یا رسول اللّه ؟ فقال: «انی رأیت (اللیلة) صبیان بنی امیة یرقون علی منبری هذا، فقلت: یا ربّ معی؟ فقال: لا و لکن بعدک»۔ گذشتہ حوالہ، ج۲، ص۵۴۲۔
Add new comment