خلاصہ: جناب جعفر طیار ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اوائل اسلام میں اسلام کو قبول کیا اور اللہ کی خاظر جنگ موتہ میں اپنی جان کو قربان کردی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جعفر ابن ابی طالب، حضرت علی(علیہ السلام) کے بھائی تھے آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے شروع میں ہی اسلام کو قبول کیا معصومین(علیہم السلام) نے آپ کی فضیلت میں بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں جن میں سے بعض کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم آپ کے مقام اور منزلت سے کچھ حد تک واقف ہوں.
دینی متون و مآخذ میں منقول روایات کے مطابق جناب جعفر طیار بہت اعلی مرتبہ و منزلت کے مالک ہیں مروی ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ سے فرمایا: اے جعفر! تم چہرے اور اخلاقیات کے لحاظ سے میری طرح ہو، یہ شباہت کچھ ایسی تھی کہ آپ کو دیکھنے والے پہلی نگاہ میں السلام علیک یا رسول اللہ کہہ کر انہیں سلام کرتے تھے جناب جعفر کو وضاحت کرنا پڑتی تھی کہ میں رسول اللہ نہیں ہوں؛ میں جعفر ہوں۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ واپس لوٹے تو جناب جعفر نے آپ کا استقبال کیا جو حبشہ سے پلٹ کر آئے تھے؛ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جناب جعفر سے معانقہ کیا ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفر کی ملاقات پر اس کے بعد انہیں ایک نماز کی تعلیم دی جو نماز جعفر طیار کے نام سے مشہور ہے جس نماز کو پڑھنے کے روایتوں میں بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے۔
جناب جعفر سےحضرت علی(علیہ السلام) کی محبت کا یہ حال تھا کہ عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ جب بھی اپنے چچا علی(علیہ السلام) سے کسی چیز کی درخواست کرنا چاہتا اور حضرت کو اپنے والد جعفر کے حق کی قسم دلاتا تھا تو میری درخواست کو قبول کرلیتے تھے۔
جعفر بن ابی طالب کی عظمت و فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ بعض آیات قرآنی ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ سورہ احزاب میں خداوند متعال فرمارہا ہے: «منَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا[سورۂ احزاب، آیت:۲۳] مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے»، علی ابن ابراہیم قمی مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: اس آیت میں وفائے عہد کرنے والے افراد سے مراد حمزہ ابن عبدالمطلب اور جعفر ابن ابی طالب ہیں۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جناب جعفر کو جمادی الاولی آٹھ ہجری کو منطقۂ موتہ کی جانب رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیا اس لشکر کے سپہ سالار کون تھے اس کے بارے میں تین لوگوں کا نام لکھا گیا ہے، زید ابن حارثہ، جعفر ابن ابی طالب اور عبداللہ ابن رواحہ[۱]۔
جعفر ابن ابی طالب نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ جنگ کی اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے یہاں تک کہ اس جنگ میں آپ کے دونوں ہاتھ منقطع ہوگئے اور اس کے بعد آپ اسی جنگ میں شھید ہوگئے[۲]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جناب جعفر طیار کی شھادت کی خبرپ پر بہت غمگین ہوئے اور آپ نے گریہ کیا[۳] اور فرمایا: خدا جناب جعفر کو دو کٹے ہوئے ہاتھوں کی بدلے میں دو پر عطا کریگا جس کے ذریعہ وہ جنب میں پرواز کرینگے، اسی لئے جناب جعفر ’’ذوالجناحین‘‘ سے مشھور ہیں[۴]۔
نتیجہ:
جناب جعفر ابن ابی طالب نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اطاعت اپنی جان کی قربانی دیکر اپنے ایمان کا ثبوت دیا کیونکہ آپ نے اللہ کے رسول کی اطاعت کی اسی لئے معصومین(علیہم السلام) نے الگ انداز میں ان کی فضیلت کو بیان کیا ہے، خدا ہم سب کو اللہ اور اس کے پھیجے ہوئے اولیاء کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] فضل ابن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الھدی، ج۱، ۲۱۲؛ ابن شهر آشوب،ج۱، ص۲۰۵؛ مجلسی، ک۲۱، ص۵۹۔
[۲] ابن عبرالبر، ج۱، ص۳۱۳۔
[۳] صدوق، ج۱، ص۱۷۷۔
[۴] ابو یعلی، ج۱۱، ص۳۵۰؛ ابن حبان، ھ۱۵، ص۵۲۱۔
منبع : http://www.rohama.org/fa/news/19491/
http://fa.wikishia.net/view/ جعفر_بن_ابیطالب
Add new comment