خلاصہ: جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس بات کا خطرہ دیکھا کہ خیبر کے یھودی قریش سے ملکر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ تو آپ نے مسلمانوں کو خیبر کے یھودیوں کے قلعوں پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و ألہ و سلم) نے مکہ سے مدینہ کی طرف مھاجرت کی اور آہستہ آہستہ مدینہ میں اسلام پہیلنے لگا، اس وقت مدینہ کے یھودی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور مسلمانوں سے شدید دشمنی کرنے لگے اور اپنی تمام تر کوشش اس بات میں صرف کرنے لگے کہ اسلام اور مسلمانوں کو کس طرح مٹایا جائے۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جب بنی نضیر کے یھودیوں کو ان کی خیانت کے سبب مدینہ سے باہر نکال دیا، ان لوگوں میں سے بعض جیسے حی ابن اخطب، سلام ابن ابی الحقیق اور کنانہ ابن ربیع ابن ابی الحقیق خیبر کی جانب روانہ ہوگئے۔ اور وہ لوگ وہاں سے مکہ جاکر قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اکسا رہے تھے[۱]، اسی بناء پر خیبر کے یھودی، اسلام کے لئے ایک خطرہ بن گئے تھے[۲]، اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ آلہ و سلم) کو اس بات کی بھی خبر ملی تھی کہ عرب کا ایک قبیلہ بنی سعد ابن بکر، جو خیبر کے اطراف میں رہتا ہے، وہ لوگ بھی یھودیوں کی مدد کرنے کے لئے خیبر میں جمع ہوگئے ہیں، جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اس بات کی اطلاع ملی تب آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) کو ایک گروہ کے ساتھ وہاں روانہ کیا، جب حضرت علی(علیہ السلام) نے وہاں پر حملہ کیا تو وہ سب لوگ وہاں سے بھاگ گئے [۳]۔
اس کے بعد دوبارہ خیبر کے یھودیوں نے عرب کے بت پرستوں کو بہت زیادہ مال و دولت کی لالچ دی اور مسلمانوں کے خلاف بھکایا تاکہ وہ مسلمانوں سے جنگ کریں، اور دوسری جانب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ یھودی روم اور ایران کے بادشاہوں کی مدد لیکر اسلام کو ختم نہ کردیں۔
اور یہ بہترین موقع تھا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خیبر کے یھودیوں سے مسلمانوں کو نجات دلائے۔ اس طرح قریش بھی مسلمانوں پر آسانی سے حملہ کرنے کے لئے کامیاب نہیں ہونگے۔
اسی فکر کے تحت رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا کہ مدینہ کے اطراف سے یھودیوں کے آخری مرکز پر قبضہ کرلیں۔ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ’غیلہ لیثی‘ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور ایک سفید پرچم حضرت علی(علیہ السلام) کو دیا اور خیبر کی جانب روانہ ہونے کا حکم دیا۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) لشکر کو خیبر کی جانب اس طرح لیکر جارہے تھے کہ کسی کو اس بات کی خبر نہ ہو، اس کام کے لئے آپ نے ایک شاعر سے کہا کہ لشکر کے ساتھ ساتھ اپنے اشعار کو سناتا جائے تاکہ یھودیوں کو ہمارے آنے کی خبر نہ ملے[۴]۔
جب لشکر خیبر کے قریب پہونچا تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس دعا کو پڑھا: خدایا تو تمام آسمانوں اور جو اس کے نیچے ہے اور تمام زمینوں اور جو اس کے نیچے ہے، اس کا پالنے والا ہے۔ میں تجھ سے اس جگہ اور اس جگہ پر رہنے والوں کے لئے اچھائی کو طلب کرتا ہوں، اور میں پناہ مانگتاہو اس جگہ اور اس کے برے اثرات سے[۵]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس دعا کے ذریعہ تمام لوگوں کو یہ بتارہے ہیں کہ میں یہاں پر کسی سے انتقام لینے کے لئے نہیں آیا ہوں، میں یہاں پر اس لئے آیا ہوں کیونکہ ان لوگوں سے اسلام کو خطرہ ہے اور اس بات کی دلیل بھی اس وقت پیش کی کہ جب آپ کے لشکر نے ان لوگوں کے قلعوں پر قبضہ کرلیا تو آپ نے ان کی زمین ان کو واپس کردی اور صرف کچھ ’جزیہ‘ لیکر ان لوگوں کی جان بخش دی۔
نتیجہ:
کیونکہ خیبر کے یھودی اسلام کے خلاف سازش کررہے تھے، اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان لوگوں کے قلعوں پر قبضہ کرنے کا حکم دیا تاکہ مسلمانوں کو ان کے شرّ سے دور رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] واقدی، ج۲، ص۴۴۱-۴۴۲: ابن هشام، ج۳، ص۲۰۱، ۲۲۵؛ بلاذری، ج۱، ص۴۰۹، ۱۹۹۶-۲۰۰؛ صلاح تجانی، ص۵۶-۵۷، ۹۲۔
[۲] صلاح تجانی، ص۹۳-۹۴؛ وات، ص۲۱۲۔
[۳] واقدی، ج۲، ص۵۲۶-۵۶۳؛ ابن هشام، ج۳، ص۲۸۶-۲۸۸۔
[۴] امالی طوسی، ص۱۶۴؛ ابن هشام، ج۲، ص۳۲۸۔
[۵] "اللهم رب السموات و ما اظللن و رب الارضین و ما اقللن...نسالک خیر هذه القریة و خیر اهلها و خیر ما فیها، و نعوذ بک من شرها و شر اهلها و شر ما فیها" کامل، ج۲، ص۱۴۷ؕ.
منبع: http://fa.wikishia.net/view/ غزوه_خیبر
http://www.hawzah.net/fa/Article/View/8725/
Add new comment