ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیوں محبوب کبریا ، اشرف کائنات ، مرسل اعظم ، دنیا کی عظیم ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا جنازہ تشییع نہیں ہوا ؟ اور وہ شہر یثرب جو آپ کے قدموں کی برکت سے مدینہ النبی کہلایا ، اسی شہر میں کیوں آپ کا جنازہ بغیر کسی احترام کے ، لوگوں کی شرکت کے بغیر ، خاموشی کے ساتھ آپ کے گھر میں دفن ہوا ؟ اور کیوں اس جنازہ میں صرف چند لوگوں نے شرکت کی ؟ اس عظیم شخصیت کے جنازہ میں شرکت کرنے والے چنندہ افراد تھے ؟ آپ کے داماد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ، آپ کے چچا جناب عباس ابن عبدالمطلب اور چند دوسرے افراد ۔ (۱)
کیوں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اتنا بھی احترام نہ کیا گیا کہ لوگ آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے ؟ کیا یہ جائز تھا کہ نبی گرامی اسلام (ص) جیسی عظیم الشان شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے اور آپ کا جنازہ تشییع نہ ہو ؟ کیا یہ جائز تھا کہ آپ جیسی بے نظیر شخصیت کا جنازہ اتنی خاموشی کے ساتھ اور بغیر لوگوں کی شرکت کے دفن ہو ؟ جبکہ آپ نے اپنے اصحاب کے جنازوں کو باشکوہ انداز میں اور بہت احترام کے ساتھ دفن کیا تھا ! ان کے جنازوں میں شرکت کی تھی ان پر خود نماز جنازہ پڑھی تھی اور خاص آداب کا خیال رکھا تھا ! تو یہ کیا ہوا کہ خود آپ کا جنازہ اتنی کسمپرسی میں لوگوں کی شرکت کے بغیر دفن ہوا ، حتی کہ آپ کی اکلوتی بیٹی کو تعزیت و تسلیت بھی پیش نہیں کی گئی بلکہ برعکس دروازہ جلایا گیا ، بداحترامی کی گئی رونے سے لوگوں کو خلل ہوا ، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالا گیا ۔ (۲)
تاریخ اسلام کے اس حصہ کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ رسول (ص) سے عشق و محبت کرنے والے آپ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے صحابہ کہاں تھے ؟ مدینہ کے لوگ کہاں تھے ؟
تاریخ نے ان سوالات کا جواب بہت واضح طور پر دیا ہے اور اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد روشن ہوجاتا ہے کہ کرسی کی لالچ ، خلیفہ بن جانے کی ہوڑ ، ریاست طلبی اور نفسانی خواہشات کی پیروی نے لوگوں کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دئے تھے اور انہیں اتنا اندھا بنا دیا تھا کہ جس باعث نہ پیغمبر کے جنازے کا احترام کیا گیا ، نہ رسول (ص) کے اہلبیت (ع) کا خیال رکھا گیا ، نہ رسول (ص) کی وصیت کو یاد کیا گیا ، نہ غدیر یاد رہی ، نہ مباہلہ یاد رہا ، نہ پیغمبر (ص) کی احادیث یاد رہیں ، نہ اسلامی رأفت کا خیال رکھا گیا اور نہ اہلبیت طاہرین (ع) سے مؤدت کا قرآنی دستور یاد رہا (۳) اور نہ اہلبیت پاک (ع) سے تمسک کا رسول (ص) کا دستور یاد رہا ، (۴) صرف مادیت غالب رہی ، پارٹی بازی کا دور دورا تھا ، جاہلیت کی جانب بازگشت تھی ، اسلامی تعلیمات کو روندا جا رہا تھا ۔
جس وقت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن و کفن میں مشغول تھے اس وقت دنیا طلب افراد خلافت کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے اور ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ تھے لڑائی جھگڑا کر رہے تھے اسی دنیا طلبی کے باعث رسول (ص) کے جنازہ کو تنہا چھوڑ دیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: ابن سعد ، طبقات الکبری ، ج2 ص78 ۔ و ابن حنبل ، مسند احمد ، ج6 ص274،242،62 ۔ و بیهقی، احمد بن حسین ، السنن الکبری ، ج3 ص409 ۔ و ابن کثیر ، السیرةالنبویة ، ج4 ص538 ۔
۲: سلیم بن قیس ھلالی ، کتاب سلیم ، ص82-249 ، و حائری مازندرانی ، مهدی ، الکوکب الدری ، ج1 ص194 ، و شیخ مفید ، الجمل ، ص117 ، و ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ ، ج2 ص326 ، و ابن جریر ، تاریخ طبری ، ج3 ص203 ۔
۳: قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ، قران کریم ، سورہ شوری ، آیت ۲۳۔
۴: وَ قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ، دیلمی ، حسن بن ابی الحسن ، إرشاد القلوب ، ج1 ، ص131 ۔
Add new comment