زیارت اربعین ایک وفاداری و محبت کا اظہار و اقرار نامہ ہے اور اس عہد کی تجدید ہے جو ہم نے اپنے آئمہ علیہم السلام سے کیا تھا کہ ہم آپ کے راستے پر چلیں گے، آپ کے دوستوں سے دوستی اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری رکھیں گے، آپ کے راستہ میں ثابت قدم رہیں گے چاہے ہمیں موت بھی آجائے، قیام و جہاد کے لئے ہمیشہ تیار رہیں گے۔ اس زیارت کے یہی وہ عالی و بلند مفاہیم و معارف ہیں جن کے سبب آئمہ(ع) نے اسے مؤمن کی علامت قرار دیا ہے ۔
ے ،ہر مؤمن ہر شیعہ کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اربعین کے روز اس زیارت کو اپنے امام علیہ السلام کے حضور آپکی ضریح مقدس کے نذدیک قرأت کرے۔لیکن ان میں جو افراد کربلا نہیں جا پاتے وہ اس زیارت کو دور ہی سے قرأت کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں لہِذا ضروری ہے کہ زیارت کے مفاھیم کو مختصر طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔تاکہ زیارت کی قرأت میں خلوص مزید ہو سکے۔
اس سے پہلے کہ زیارت کی شرح شروع کی جائے اس زیارت کی سند اور راوی کے بارے مختصر وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔ زیارت اربعین کا جو متن مشہور ہے اسکو امام صادق علیہ السلام نے صفوان بن مہران کہ جو صفوان جمال کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ، تعلیم فرمایا تھا۔ امام نے فرمایا ای صفوان جب سورج بلند ہو جائے اور دن چڑھ جائے اس زیارت کی قرأت کرنا ۔
سید ابن طاوس نے اپنی اسناد کے ساتھ صفوان سے اقبال الاعمال میں ، المزار الکبیر میں محمد بن جعفر مشھدی نے ،المصباح میں کفعمی نے ، المصباح المتہجد میں شیخ طوسی نے اور بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے اور انکے علاوہ دیگر علماء نے اس کے متن کو کم و بیش فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔
Add new comment