روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ابلیس نے کہا خدایا ! مجھے حضرت ادم علیہ السلام کے سجدے سے معاف فرما اس کے بدلے تیری اس قدر عبادت کروں گا کہ تیرے مقرب ملائکہ اور ، پیغمبروں اور رسولوں نے بھی نہ کیا ہو ، خداوند متعال نے فرمایا : مجھے تیری عبادت کی ضرورت نہیں ہے میری عبادت فقط اس طرح ہے جس طرح میں پسند کرتا ہوں نہ اس طرح جس طرح تجھے پسند ہے قَالَ إِبْلِیسُ یَا رَبِّ اعْفُنِی مِنَ السُّجُودِ لِآدَمَ (علیه السلام) وَ أَنَا أَعْبُدُکَ عِبَادَهْ لَمْ یَعْبُدْکَهَا مَلَکٌ مُقَرَّبٌ (علیه السلام) وَ لَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ (علیه السلام) قَالَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی لَا حَاجَهْ لِی إِلَی عِبَادَتِکَ إِنَّمَا أُرِیدُ أَنْ أُعْبَدَ مِنْ حَیْثُ أُرِیدُ لَا مِنْ حَیْثُ تُرِیدُ ۔ (۱)
جی ہاں ! شیطان نے خود کو برتر اور بہتر سجمھتے ہوئے خدا کے حکم کی نافرمانی اور سرپیچی کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا نیز ابدی لعنت کا مصداق قرار پایا ۔ قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۲﴾ اللہ نے فرمایا: تو یہاں سے نکل جا پس بیشک تو مردود (راندۂ درگاہ) ہے اور بیشک تجھ پر روزِ جزا تک لعنت (پڑتی) رہے گی ۔ اس مقام پر ایک بات قابل توجہ ہے کہ حضرت ادم علیہ السلام قبلہ تھے اور ملائکہ نے خدا کے لئے اور خدا کے حکم سے سجدہ انجام دیا تھا ، روایت میں موجود کہ ایک زندیق ( منکرین دین) نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ خدا نے کیونکر ملائکہ کو حکم دیا کہ جناب ادم کا سجدہ کریں ؟ تو حضرت علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ جو خدا کے حکم سے سجدہ کرے گویا اس نے خدا کا سجدہ کیا ہے ، فِي جَوَابِ مَسَائِلِ اَلزِّنْدِيقِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّهُ سَأَلَ أَ يَصْلُحُ اَلسُّجُودُ لِغَيْرِ اَللَّهِ قَالَ لاَ قَالَ فَكَيْفَ أَمَرَ اَللَّهُ اَلْمَلاَئِكَةَ بِالسُّجُودِ فَقَالَ إِنَّ مَنْ سَجَدَ بِأَمْرِ اَللَّهِ فَقَدْ سَجَدَ لِلَّهِ فَكَانَ سُجُودُهُ لِلَّهِ إِذْ كَانَ عَنْ أَمْرِ اَللَّهِ ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: تفسیر اهل بیت علیهم السلام ج۵، ص۴۸ ؛ و بحار الأنوار، ج۱۱، ص۱۴۱ ۔
۲: قران کریم ، سورہ حجر ، ایت ۳۴ ۔
۳: بحار الأنوار، ج۱۱ ۔ ص ۱۳۸ ۔
Add new comment