قران کریم نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے سلسلہ میں فرمایا : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللَّهَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ وَذَکَرَ اللَّهَ کَثِیرًا ۔ (۱)
کلمۂ ‘‘ اسوۃ‘‘ اچھے کاموں میں دوسرے کی پیروی اور تاسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، قرآن مجید میں یہ کلمہ دو بار دو عظیم الشان انبیاء کے لئے استعمال ہوا ہے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اور دوسرے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بارے میں ۔
جنگ احزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا کردار تمام سپہ سالاروں کے لئے نمونہ عمل ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم لوگ جنگ کے ہنگامہ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کواپنی پناہ گاہ قرار دے لیتے تھے اور آپ ہم سب کے مقابلے میں دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوتے تھے ، (اتقینا برسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلم یکن منا اقرب الی العدو منہ) ۔ (۲)
یہ آیت جنگ احزاب کی آیتوں کے درمیان ہے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا نمونہ عمل ہونا صرف جنگ احزاب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم زندگی کے تمام میدانوں میں تمام مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سب سے بہترین نمونہ ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ارشادات ، آپ کا عمل اور آپ کی تقریر(کسی عمل کے سامنے خاموشی) حجت ہے ، (لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) ۔ (۳)
منافقین اور دلوں کے بیمار افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وعدوں کو فریب قرار دیتے تھے ، جب کہ اس کے برخلاف اس آیت میں تذکرہ ہے کہ صاحبان ایمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ان وعدوں کو سچا اور حقیقی قرار دیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ احزاب ، ایت ٢١ ۔
۲: شيخی، حميد رضا ، پيامبر اعظم از نگاه قرآن و اهل بيت(ع) ، ص ۱۶۵ ۔
۳: قران کریم ، سورہ احزاب ، ایت ٢١ ۔
Add new comment