عمل کا بازار ہمیشہ کساد بازاری کا شکار رہتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ افراد جن کو شریعت طاہرہ کاعلم بھی ہے تو وہ بھی اس پر پورا پورا عمل نہیں کرتے اگر کوئی عمل بھی کرتا ہے تو ناقص انداز میں کرتا ہے، یا ظاہری صورتحال پر اکتفا کر لیتا ہے۔ ہمارے تمام اعمال نامہ اعمال میں لکھے اور محفوظ کئے جارہے ہیں موت کے بعد صرف اعمال ہی انسان کے ساتھ ہوں گے۔
عمل کا بازار ہمیشہ کساد بازاری کا شکار رہتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ افراد جن کو شریعت طاہرہ کاعلم بھی ہے تو وہ بھی اس پر پورا پورا عمل نہیں کرتے اگر کوئی عمل بھی کرتا ہے تو ناقص انداز میں کرتا ہے، یا ظاہری صورتحال پر اکتفا کر لیتا ہے۔
ہمارے تمام اعمال نامہ اعمال میں لکھے اور محفوظ کئے جارہے ہیں موت کے بعد صرف اعمال ہی انسان کے ساتھ ہوں گے۔
اگر عمل صرف اور صرف خدا کے لئے ہو اور انسان اس کے تمام اطراف کی حفاظت کرے تو اس کا صلہ اللہ تعالی ضرور دے کا شرط یہ ہے کہ انسان کسی کو دکھ نہ دے، کسی کے حقوق کو زائل نہ کرے تو اللہ تعالی ایسے شخص کی کفایت کرے گا اور اس سے محبت کرے گا اور ایسے انسان کی وجہ سے اللہ تعالی ملائکۂ مقر مین میں فخرومباہات کرے گا۔
اہل عمل ہی وہ ہوں گے جو بہشت کے حقدار ہوں گے نہ کہ وہ جو صرف باتوں پر گزارا کرتے ہوں ، اس ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ عبرت کا سامان رہے:
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن میرے والد محترم کے پاس ان کے بہت سے اصحاب جمع تھے میں بھی اپنے والد ماجد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے والد نے اپنے دوستوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا بھی ہے جو جلتا ہوا انگاره اپنے ہاتھ پر اس وقت تک رکھے جب تک وہ انگارہ بجھ نہ جائے، میرے والد ماجد کے تمام اصحاب چپ رہے انھوں نے سر جھکا لیا کسی نے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے عرض کیا:
بابا جان ! آپ مجھے اجازت دیں میں یہ کام کرتا ہوں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ نہ پیارے بیٹے تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ، میری گفتگو ان لوگوں سے ہے۔
پھر آپ نے تین مرتبہ اپنے الفاظ کو دہرایا کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔
آپ نے فر ما یا کہ باتیں کرنے والے بہت ہیں اور عمل کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں ، حالانکہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے۔
میں ان لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں جو عمل کے غازی ہیں اور ان کو بھی جانتا ہوں جو گفتار کے غازی ہیں میں صرف تم لوگوں کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فر ماتے ہیں جب میرے والد ماجد نے یہ باتیں کیں تو سب نے شرمندگی کی وجہ سے سر جھکا لیا ایسا لگتا تھا کہ جیسے زمین ان لوگوں کو نگل رہی ہے بعض لوگوں کے جسموں سے شرمندگی کا پسینہ جاری ہوا، اور تمام لوگوں کی نگاہیں شرمندگی کی وجہ سے زمین پر ٹکی ہوئیں تھیں، جب والد ماجد نے ان کی شرمندگی کا مشاہدہ کیا تو فرمایا کہ خدا تمہیں معاف کرنے میں تمھیں ز یا دہ زحمت دینا نہیں چاہتا تھا بلکہ یہ بتانا مقصود تھا کہ بہشت کے بہت سے درجات ہیں اور بہشت کے اعلیٰ درجہ میں صرف وہی لوگ جا ئیں گے جو با عمل ہوں گے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس وقت میں نے دیکھا کہ میرے والد کے اصحاب جیسے بہت زیادہ بوجھ سے آزاد ہوگئے ہوں اور یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کے پہلے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور اب اچانک ان کے ہاتھ آزاد ہوئے ہوں ۔ [بامردم اینگونه برخوردکنیم، ص 65]
...............
1-فقيه ايماني ،مهدي، قم: عطر عترت ، ۱۳۸۴،با مردم اينگونه برخورد كنيم۔
Add new comment