مذہبی اور غیر مذہبی ايمان میں فرق

Sat, 12/18/2021 - 15:04

انسان چاہے اسے پسند کرے یا نہ کرے ، اپنی معاشرتی زندگی میں اخلاقی اور معاشرتی مسائل سے روبرو ہوتا ہی ہے اور ان معاملات پر کسی طرح سے رد عمل ظاہر کرے؛ اور ان مسائل کا سامنا کیسے  کرےاس پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے،اب اگر اسکے سامنے کوئی ایک راستہ ہو ایک آئیڈیالوجی اور ایمان پایا جاتا ہو تو انسان کی طرز زندگی واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ کیسے ان مسائل سے نمٹا جائے اور کیسے ایک بہتر زندگی گذاری جائے لیکن اگر ایمان کا فقدان ہو اور راستہ مشخص نہ ہو تو پھر مسائل سر ابھارنے لگتے ہیں اور انسان ایک ایسے موجود میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے کہ جسکے پاس نہ سوچ ہے نہ سمجھ ،جدان سے خالی اور انسانیت سے مبرّااور خودخواہی میں ڈوبا ہوا۔

مذہبی اور غیر مذہبی ايمان میں فرق

*مذہبی ایمان  کی خصوصیت میں اسکا  ازلیت و ابدیت کے ساتھ گہرا رابطہ اور منبع ہستی کے ساتھ متصل ہونا ہےاور اعتقاد کے حوالے سے لافانی اور عدم سے وابستہ نہ ہونا ہےاور اس ایمان کا عمیق رابطہ روح سے اس قدر ہے کہ اسکی ہی وجہ سے روح کو  آرام سکون میسّر ہے﴿ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ([1])﴾([2]

ایمان بمقابلۂ بے ایمانی:

*مجموعی طور پر ایمان  کے بالمقابل کسی آئیڈیالوجی اور عقیدے پر ایمان کا نہ ہونا اور اسے بطور نمونہ قبول نہ کرنا اور اسمیں دلچسپی نہ دکھانے سے اسکی ساری قدر و قیمت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور پھر اس بے ایمانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بس اپنے مفادات کی تلاش میں رہتا ہے اور پوری طرح سے خود خواہی اور خودپرستی  اس پرحاوی ہوکر رہ جاتی ہے اور خود غرضی کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتا چاہے یہ چیزانفرادی شکل میں ہو یا چاہےمعاشرتی صورت میں ۔([3])

*ایمان: اخلاقی اور معاشرتی امور سے نمٹنے میں انسانی طریقۂ کار کو واضح اور روشن  کرتا ہے اور الجھنوں سے بچاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ، انسان چاہے اسے پسند کرے یا نہ کرے ، اپنی معاشرتی زندگی میں اخلاقی اور معاشرتی مسائل سے روبرو ہوتا ہی ہے اور ان معاملات پر کسی طرح سے رد عمل ظاہر کرے؛ اور ان مسائل کا سامنا کیسے  کرےاس پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے،اب اگر اسکے سامنے کوئی ایک راستہ ہو ایک آئیڈیالوجی اور ایمان پایا جاتا ہو تو انسان کی طرز زندگی واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ کیسے ان مسائل سے نمٹا جائے اور کیسے ایک بہتر زندگی گذاری جائے لیکن اگر ایمان کا فقدان ہو اور راستہ مشخص نہ ہو تو پھر مسائل سر ابھارنے لگتے ہیں اور انسان ایک ایسے موجود میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے کہ جسکے پاس نہ سوچ ہے نہ سمجھ ، وجدان سے خالی اور انسانیت سے مبرّااور خودخواہی میں ڈوبا ہوا یا پھر ایسا انسان بن جاتا ہے جو اپنی زندگی میں حیران و پریشان اور شش و پنج میں گرفتاراپنے آپ سے ناراض اور خود سے ہی لڑتا جھگڑتااور عجیب و غریب حرکات میں مبتلا اور تناقضات کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔([4])

بت پرستی اور ایمان:

*جس طرح سے کہ کسی ایک چیز کے سامنے سراپا تسلیم ہوجانا اسکی اصل حقیقت و واقعیت کو پہچانے بغیر ایمان نہیں ہے،اسی طرح یہ کفر بھی نہیں ہے،مثلاًایک لکڑی کے یا لوہے کے یا جسم والے بت کے سامنے تسلیم ہوجانااس خیال سے کہ یہ کون و مکان میں مؤثر ہے یہ پرستش اور عبادت تو کہلائے گا لیکن ایمان نہیں،اسی لیے قرآن مجید نے بت پرستوں کو پرستش کی صفت سے تو یاد کیا ہے لیکن ایمان کی صفت انکی جانب منسوب(جہاں تک مجھے یاد آتا ہے) نہیں کی ہے، اور جیسا کہ ہم نے اسی صفحے کی فٹ نوٹ میں ذکر کیا ہے کہ ایمان میں معرفت اور سراپاتسلیم ہونے جیسے عناصر کے ساتھ ہی عشق کا عنصر بھی پایاجانا ضروری ہے۔([5])

*کسی کے سامنے سراپا تسلیم ہونے کے مفہوم میں پوری طرح سے خضوع اور تقدس کاپہلو بھی شامل ہوتا ہے،اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ تسلیم جو ایمان کے مفہوم میں شامل ہے وہ خاضعانہ اور متواضعانہ اور پھر متذلّلانہ طور پر سراپا تسلیم ہونا ہے،لیکن زور زبردستی تسلیم ہوجانا اور بس دکھاوے اور یونہی طور پر تسلیم ہوناایمان کے مفہوم کے صادق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے،آپ بعض اوقات کہتے ہیں کہ میں فلاں شخص پر ایمان رکھتا ہوں اور آپ اس طرح سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے اسے کماحقہ پہچان لیا ہے اور اسکے مقابل میں آپ سراپا تسلیم بھی ہیں جبکہ آپکی یہ معرفت اسکی عظمت اور بلندی کی وجہ سے ہے۔([6])

ایمان  اور  اگزيسٹانسياليسم(Existentialism / وجودیت)([7])

*اگزيسٹا نسياليسٹی ایمان  یعنی وجودی عقیدہ ، دنیا سے مایوسی اور انسان کے بارے میں پر امید  رہنا تو سکھاتا ہےلیکن انسان کو دنیا سے الگ تھلگ کردیتا ہے اور  چاہتا ہے کہ دنیا سے کٹ چکے اور الگ اور تھلگ پڑچکے اس انسان وجود سے ہی ایک نئی دنیا تشکیل دے  جوکہ ناممکن اور محال ہے ، لیکن مذہبی ایمان انسان کو دنیا کا ساجھے دار اور رشتہ دار بنا دیتا ہے۔ اور وہ انسان کے کمال کو دنیا میں گھل مل کر جینے میں اور اسی میں گزارے لمحات سے وابستہ ہونے اور اس سے متصل رہنے  میں قرار دیتا ہے  دنیا سے منقطع ہونے میں نہیں۔([8])
------------
([1]) رعد (۱۳): ۲۸۔
([2]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۷۷۔
([3]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۷۷۔
([4]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۷۹۔
([5]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۰۷۔
([6]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۰۸۔
([7]) وجودیت (Existentialism) کا فلسفہ سورین کرکیگارڈ نے دیا۔ اس کے نزدیک وجود جوہرپر مقدم ہے۔ اور آدمی اس کے سوا کچھ نہیں جو خود کو بناتا ہے، و جو دیت کی اسا س اس امر پر استوا ر ہے کہ انسا ن اس د نیا میں آ زا د اور منفر د پیدا ہو ا لیکن معا شر ے میں ر ہنے کی بناپر وہ اپنے لیے ایک خا ص نو ع کا طر زِ عمل منتخب کر نے پر مجبو ر ر ہے۔ بحثیت ایک فرد انتخا ب اس کا حق ہے جبکہ معا شر ے کا ایک ر کن ہو نے کی بنا پر یہی انتخاب ایک مجبو ر ی بن جا تا ہے اور اسی کر ب کا وہ احسا س جنم لیتا ہے جو جد ید انسا ن کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
([8]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۰۸۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 69