"فتکشف ما فی الصدور و تجلّت النفس العربیة" پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بعض لوگوں کے اندرونی عقدے کھل گئے نیز ان کی عربی خو، بو کی فطرت اور خاندانی تعصب آشکار ہوئے۔
عربی لغت میں ارتداد ” بازگشت“ کے معنی میں ہے ، قرآن مجید میں آیہ "فَلّما إنْ جَاءَ البَشیر القیہ علی وجھہ فارتدّ بَصیراً" قرآن کریم میں کلمہ ” رد “ دین سے منہ پھیرنے“ اور مسلمانوں کی اسلام سے روگردانی کے معنی میں آیا ہے، چنانچہ اس آیت میں آیا ہے : یا ایُّھا الّذینَ آمنوا اِن تُطیعوا فریقاً مِنْ الَّذینَ اٴُوتوا الکِتابَ یَرُدّوکُم بعد إیمانکم کافِرینَ۔ اسی طرح ایک دوسری ایت کریمہ میں ارشاد ہے کہ "یا ایھا الذین آمنوا من یرتدّ منکم عن دینہ فسوف یاٴ تی الله بقوم یحبّھم و یحبّونہ اذلة علی المؤمنین اعزة علی الکافرین" نیز ایک اور ایت کریمہ میں مرتد کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ" ولایزالوں یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا و من یَرتَدِد منکم عن دینہ فیمت وھو کافر اولئک حبطت اعمالھم" ارتداد کا استعمال اسلام میں بازگشت کے معنی میں اس قدر مشہور ہوا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اورمعنی ذہن میں نہیں آتا ۔
پیغمبر کے زمانے میں مرتد
بعض مسلمان ، پیغمبر کے زمانے ہی میں مرتد ہوگئے ، جیسے : عبد اللهبن سعد بن ابی سرح ، اس نے اسلام قبول کرکے مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر اسلام کا کاتب بن گیا ، اور اس کے بعد مرتد ہوگیا اور قریش کی طر ف مکہ لوٹا وہ قریش سے کہتا تھا کہ میں وحی لکھنے والوں میں سے ایک تھا اور محمد کو جس طرف چاہتا موڑدیتا تھا ، وہ مجھ سے کہتے تھے کہ ”عزیز حکیم“ لکھو، میں کہتا تھا "علیم حکیم" وہ فرماتے تھے : جی ہاں ، دونوں مناسب ہیں ۔
فتح مکہ کے دن رسول الله نے عبد اللہ کو قتل کرنا حلال قرار دیا اور حکم فرمایا جو کوئی عبد اللہ کو جس حالت میں بھی پائے ، حتی وہ کعبہ کے پردے کا دامن بھی پکڑے ہو توبھی اسے قتل کرڈالے عبد اللہ نے اپنے رضاعی بھائی عثمان کے پاس پنا ہ لی ، عثمان نے اسے اپنے گھر میں چھپا ئے رکھا ، اور اسکے بعد رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے حضور لاکر امان حاصل کی ۔
دیگر مرتدین میں ایک عبدا للہ جحش ہے جو پہلے ام حبیبہ کا شوہر تھا اور اپنی بیوی سمیت اسلام قبول کیا عبداللہ نے حبشہ میں دین مسیحیت اختیار کیا اور اسی حالت میں انتقال کرگیا اور ایک مرتد عبد اللہ بن خطل تھا وہ اس حالت میں قتل کیا گیا کہ کعبہ کا پردہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھا ۔
خیلفہ اول ابوبکر کے زمانے میں ارتداد
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی دلسوز خبر جنگل کی آگ کے مانند تمام جزیرہٴ عرب میں پھیل گئی ، اس زمانے میں جزیرہ میں ساکن عرب دو حصوں میں تقسیم ہوتے تھے :
۱۔ وہ جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔
۲۔ وہ جو ابھی اپنے پہلے دین پر باقی تھے ۔
وہ لوگ جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا انھوں نے رسول اللہ کی رحلت کے بعد زیادہ قوت اور قدرت حاصل کی اورکھلم کھلا مبارزہ او رمقابلہ کرنے پر اتر آئے ۔
۱۔ عثمان نے عبد اللہ کو ۲۵ ھجری میں مصر کا حاکم مقرر کیا اور وہ ۳۴ ھجری تک اس منصب پر قائم رہا اور ۳۴ ھجری میں سائب بن ہشام عامری کو اپنا جانشین مقرر کرکے عثمان کی ملاقات کیلئے مصر سے روانہ ہوا اس موقع پر محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور سائب کو اقتدار سے برطرف کیا او خود حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔
عبد اللہ بن سعد جب واپس آیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس سے مصر میں داخل ہونے سے روکا پھر وہ نواحی شام میں واقع عسقلان گیا اور وہیں سکونت اختیار کی یہاں تک کہ ۳۶ھء میں عثمان قتل کئے گئے اور وہ تا ۵۷ھجری یا ۵۸ھجری میں وہیں پر وفات پا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1۔ یوسف ،۹۷۔
2۔ آل عمران، ۹۹
3۔ المائدہ /۵۴
4۔ البقرہ/۲۱۷
5- استعاب ج ۲/ ۳۶۷۔ ۳۷۰
6- ۲۔ الاصابہ، ج ۲ص ۳۰۹،۳۱۰
Add new comment