(سورہ ہود کی 112 ویں ایت کے کچھ دروس)
سورہ ھود کی 112 ویں ایت کریمہ میں ارشاد رب العزت ہے کہ : فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ۔ ترجمہ : پس آپ ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہے) جس نے آپ کی معیت میں (اللہ کی طرف) رجوع کیا ہے، اور (اے لوگو!) تم سرکشی نہ کرنا، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو وہ اسے خوب دیکھ رہا ہے . (1)
اس ایت کریمہ میں موجود بعض نکات کی جانب ہم یہاں پر اشارہ کررہے ہیں :
روایت میں مرسل اعظم صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے منقول ہے کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا، «قیل یا رسول الله لقد أسرع إلیک الشیب ؟ قال: شیبتنی سورة هود والواقعة والمرسلات وعم یتساءلون وإذا الشمس کورت؛ (2) بیان کیا گیا ہے کہ اس سے حضرت کی مراد سورہ ھود کی یہی ایت شریفہ ہے۔
اور ایک دوسرے مقام پر حضرت سے یوم نقل ہوا ہے کہ «شیبتنی سورة هود وأخواتها : الواقعة، والقارعة، والحاقة، إذا الشمس کورت و سأل سائل؛ (3) سورہ ھود اور اس کے مانند سورے "واقعه، قارعه، الحاقه، اذا الشمس کورت و سئل سائل" نے مجھے بوڑھا بنا دیا ہے۔
نیز راوی نے حضرت سے یون نقل کیا کہ " «شیبتنی هود وأخواتها ، وما فعل بالأمم قبلی؛ (4) سورہ ھود اور اس کے مانند سورے نیز ماضی کی سرکش و باغی امت کے مانند مجھ سے ہونے والے برتاو نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔
اس مقام پر بہت سارے مفسرین کا بیان ہے کہ رسول اسلام صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اس لئے ایسا کہا، کیوں کہ ایت میں ارشاد ہے" «فاستقم کما امرت و من تاب معک؛ اے رسول ثابت قدم رہئے اور استقامت دیکھائے نیز وہ لوگ بھی ثابت قدم رہیں جنہوں نے اپ کے ہمراہ توبہ کیا ہے اور ایمان لائے ہیں۔
بعض علمائے کرام کی جانب منسوب ہے کہ اپ نے خواب میں رسول اسلام (ص) کو دیکھا تو حضرت سے سوال کیا اور اپ سے پوچھا کہ اس بات سے کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا اپ کی مراد کیا تھی ؟ اپ کا مقصود کیا تھا؟ کیا اس وجہ سے تھا کہ اس سورہ میں ماضی کے انبیاء الھی کے قصے اور ہلاک شدہ امتوں کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ " نہیں" بلکہ اس کی وجہ یہ ایت کریمہ تھی" فاستقم کما امرت" ۔(5)
مفسر کبیر المیزان علامہ طباطبائی اس ایت کریمہ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس ایت کریمہ میں براہ راست رسول اسلام کو مخاطب بنایا گیا، اس ایت میں احترام و اکرام کے ساتھ ساتھ مفھوم اور لب و لہجہ میں سختی بھی موجود ہے ، اس ایت میں موجود سختی گذشتہ امتوں کی سختیوں کے برابری کرتی ہے، اسی بنیاد پر مفسرین، رسول اسلام (ص) کےاس کلام کہ" سورہ ہود نے مجھے بوڑھا بنادیا" کی بنیاد اس ایت کریمہ کو بتاتے ہیں۔ (6)
علامہ طباطبائی نیز تحریر فرماتے ہیں کہ تفسیر درالمنثور میں آیا ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی رسول اسلام (ص) نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ" شمروا شمروا" آستینوں کو اوپر چڑھاو آستینوں کو اوپر چڑھاو اور پھر اس کے بعد رسول اسلام (ص) کے لب مبارک پر ہنسی نہ دیکھی گئی ۔ (7)
صاحب ریاض السالکین اس ایت کریمہ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس ایت کریمہ میں موجود استقامت اور ثبات قدمی کا حکم تمام وظائف و ذمہ داریوں کو شامل ہے ۔ (8)
امام خمینی (رہ) اپنے استاد گرامی نیز دیگر عرفا سے نقل فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ صرف رسول اسلام (ص) کو استقامت کا حکم آنحضرت کی پیری اور بوڑھے ہونے کا سبب نہیں بنا کیوں کہ یہ حکم تو سورہ شوری میں بھی ایا ہے، بلکہ اس ایت کریمہ میں حضرت (ص) کو اپنی امت میں بھی استقامت کا حکم دیا گیا ہے (و من تاب معک) ، جب امت کی استقامت کا حکم اپ کے دوش پر ڈالا تب اپ نے اپنے بوڑھے ہونے کا اعلان کیا، البتہ اس بات پر توجہ لازمی و ضروری ہے کہ ممکن ہے فقط یہ ایت کریمہ حضرت کی بوڑھے ہونے کا سبب نا بنی ہو بلکہ اس کے مانند سوروں میں موجود قیامت کے حالات کے تذکرہ اور اس کے خوف نے حضرت کو بوڑھا کردیا ہو۔ (9)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1- سورہ ھود کی 112
2- متقی هندی، کنز العمال، بیروت، مؤسسه الرساله، 1409 ق، ج 2،
3- ص 313. 2. سیوطی، الجامع الصغیر، بیروت، دار الفکر، 1401 ق، ج 2، ص 82.
4- اردبیلی، زبده البیان، تهران، مرتضویه،ص 168.
5. طباطبایی، المیزان، قم، انتشارات اسلامی، ج 11، ص 50.
6. طباطبایی، المیزان، قم، انتشارات اسلامی، ج 11، ص 66.
7. سید علی خان، ریاض السالکین، قم، انتشارات اسلامی، 1415 ق ، ج 3، ص 310.
8- شوری (42) آیه 15.
9- مکارم شیرازی ، الامثل ،ج 19 ، ص 286. طباطبایی، همان، ج 11،ص 66 .
Add new comment