غربت کے خوف سے شادی نہ کرنا

Mon, 07/05/2021 - 07:57
غربت کے خوف سے شادی نہ کرنا

 

            کون نہیں جانتا کہ ازدواج ہی وہ مقدمہ ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے خاندان جیسی بنیادی اکائی فراہم کرتا ہے، معاشرے میں خاندان کی اہمیت ایک ستون کی سی ہے، اگر کہیں پر خاندانی نظام کھوکھلا ہونا شروع ہوجائے تو وہاں کا معاشرہ روبہ زوال ہو کر نہ صرفف یہ کہ اپنی اخلاقی و دینی روایات کھودیتا ہے بلکہ اپنی تہذیب و تمدن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
            تاریخ گواہ  ہے کہ جو قومیں اخلاقی و دینی روایات کھودیں اور اپنی تہذیب و تمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں وہ کسی بھی طرح آبرومندانی زندگی نہیں گزار سکتیں، معاشرتی  استحکام اور اقوام کا وقار خاندانوں کی تشکیل پر ہی موقوف ہے۔
            مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کے جوان و نوجوان مغربی دنیا کی یہ سوچ کہ پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا پھر شادی ، کو اپنی ازدواجی زندگی پر مقدم کردیتے ہیں اور شادی دیر میں کرتے ہیں، جب ان سے پوچھا جاتاہے تو وہی یہی کہتے ہیں کہ اگر شادی کرلیں گے تو گھر کیسے چلائیں گے۔
            حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں عام طور پر شادی نہ کرنے کی اصلی وجوہات میں سے ایک وجہ، زندگی کے اخراجات کی فکر ہے۔ جیسے جیسے سماجی زندگی کی سطح بلند تر ہوتی جارہی ہے، انسان فکرمند ہوتا جارہا ہے اسی لئے بعض اوقات آج کل کا جوان شادی کرنے میں دیر یا شادی کرنے سے ہی منصرف ہوجاتاہے۔ فقر و تنگدستی کاخوف، اسکی شادی میں رکاوٹ بن جاتا ہےاوریہی وجہ ہے کہ انسان ذہنی اور روحانی طور پرمفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔
             اللہ تعالی نے واضح طور پر شادی فرمایاہے:اگر تازہ شادی شدہ جوڑے فقیر اور تنگدست ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے ان کو بے نیاز کردیتا ہے۔ ” ‏ وَ أَنْکِحُوا الْأَیامى‏ مِنْکُمْ وَ الصَّالِحینَ مِنْ عِبادِکُمْ وَ إِمائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ“(۱)اور اپنےغیر شادی شدہ آزاد افراد اوراپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادےگا کہ خدا بڑی وسعت والا والا اور صاحب علم ہے۔
            پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی آیت پراستناد کرتے ہوئے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں جو فقر و تنگندستی سے ڈرکر شادی بیاہ سے بھاگتے ہیں ” ‏و من ترک التّزویج مخافة العیلة فقد أساء الظّنّ باللّه- عزّ و جلّ) إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ“(۲) اگرکوئی شخص اہل وعیال کے مخارج کے ڈر سے شادی نہ کرے تو اس نے خداوند رزاق پربدگمانی برتی ہے؛ کیونکہ خداوند صاف لفظوں میں فرماتاہے: اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا ہے۔
            لہذا اقتصادی مسائل کو اصل مشکل تصور نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ یہ ایک قسم کا وھم  اور اعتقادی کمزوری ہے۔ شادی کا حل مالدار ہونے میں نہیں ہے؛ بلکہ اپنےعقائد اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ توحیدی عقیدے کے رو سے اللہ  رزق دینے والا ہے اوراللہ نےتمام مخلوقات کی رزق کی ضمانت دی ہے، اور نے وعدہ کیا ہے کہ جوڑوں کو بے نیاز کردے گا۔
            فقر و فاقہ سے پریشان ہونا دراصل خدا پر بے اعتماد ہونا ہے، جیسا کہ  امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”و من ترک التّزویج مخافة العیلة فقد أساء الظّنّ بالله “ ‏ (۳)اگر کوئی فقرو تنگدستی کی وجہ سے شادی نہیں کرتا توگویا وہ اللہ تعالی پر بد گمان ہواہے۔
            اس طرح کے افرادکا خدا  پر بےاعتمادی اور رازقیت پرشک کرنا ہے، اس طرح کے افراد مالی مشکل گرفتار نہیں ہیں بلکہ خدا کی عدم شناخت اور اعتقادی کمزوری کے شکار ہیں۔ اگر انسان اپنے عقیدے کی اصلاح کرلے اور اللہ کی رزاقیت  پر بھروسہ رکھے تو کبھی زندگی میں اقتصادی مسائل سے نہیں گھبرائے گا۔

درحقیقت فقر و تنگدستی کاخوف شیطان کا  ایک حیلہ ہے، جیسا کہ رب کائنات کا ارشاد ہے:”‏الشَّیْطانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشاءِ وَ اللَّهُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ “(۴) شیطان تم سے فقیری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے  خدا صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔
          انسان کا یہ تصور کرنا کہ شادی انسان کی مادی زندگی کو مشکل ساز بنا دیتی ہے بالکل غلط ہے بلکہ اسلامی تعلمیمات کی رو سے شادی انسان کی مادی اورمالی زندگی کو بہتر بنادیتی ہے۔ یہ اللہ تعالی کا قانون ہے اس پر ہر مسلمان کو یقین رکھنا چاہیے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے آئندہ کے رزق کا حال ہی میں بندوبست کرلینا چاہیے؛ لیکن الہی قانون کا کہنا ہے کہ تم قدم بڑھائو، رزق خود بخود مہیا ہوگا۔
            پیغمبر اکرم دوسرے مقام اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ” ‏تزوّجوا الزرق فإنّ فیهنّ البرکة. تزوجوالنساء فانهن یاتینکم باالمال“عورتیں شوہر کے گھر مال و دولت کے ساتھ آتی ہیں (۵) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شادی کو رزق و روزی کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”الْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّکَاح“ روزی کو شادی بیاہ میں تلاش کرو(۶)۔
            انسان رزق کی ضمانت کا مطلب کچھ اس طرح تصورکرتا ہے کہ تمام عمرکے لئے رزق و روزی زمان حال ہی میں موجود ہو! حالانکہ رزق کی ضمانت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے۔ الہی قوانین یہ ہیں کہ انسان کی روزی، زمانے کے ساتھ ساتھ ملتی جاتی ہے، اس قانون کو پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ یوں بیان فرمارہے ہیں: ”یا علىّ لا تهتم لرزق غد فانّ کلّ غد یأتى برزقه “  (۷)اے علی  آنے والے کل کی روزی کی فکر مت کرنا؛ کیونکہ ہر آنے والا کل اپنی روزی ساتھ لے کر آتا ہے۔
            یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ” مَنِ اهْتَمَّ بِرِزْقِ غَدٍ لَمْ یُفْلِحْ أَبَداً“ اگرکوئی شخص آنے والے کل کی روزی کے لئے فکر مند رہے تو وہ ہرگز کامیابی نہیں پائے گا(۸) اس بحران سے نجات صرف مذکورہ قانون پر یقین کرنے میں ہی ہے، اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ آنے والے کل کی روزی اسی کل کے ساتھ ملنے والی ہے تو اس رزق کے آج نہ ہونے پر فکرمند نہیں ہوگا اور آرام و سکون کی زندگی گزارے گا۔
            سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ روزی کی ضمانت کا قانون صرف اس انسان کے لئے ہے جو محنت کش ہو،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوند روزی عطا کرنے والا ہے، وہ اسی انسان کو باعزت رزق مہیا کرتا ہے جورزق حلال کے حصول میں کوشاں رہتا ہے، پروردگارایسے انسان کی روزی کی ضمانت دیتا ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے روزی کمانے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہاں روزی اور رزق سے مراد زیادہ مالدار اورثروت مند ہونا نہیں ہے جو ہمیشہ حرص اور زیادہ خواہی کے ہمراہ ہے، جس چیز کے بارے میں خدا نے ضمانت دی ہے وہ روزی ہے نہ ثروت اندوزی۔ ہرگزیہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ روزی کی ضمانت سے مراد، مال ودولت اور انسانی طویل آرزوئیں ہیں۔ محنت کش انسان اپنے آئندہ کا فکرمند نہیں رہتا ہے وہ خدا  پر توکل کرتے ہوئے اپنی سعی و کوشش جاری رکھتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ‏لا تحمل على یومک همّ سنتک، کفاک کلّ یوم ما قدّر لک فیه، فان تکن السّنة من عمرک فانّ اللَّه سبحانه سیأتیک فى کلّ غد جدید بما قسم لک، و ان لم تکن من عمرک فما همّک بما لیس لک“(۹) سال بھرکی روزی کی فکر کو آج پر بار مت کرو، ہردن کے لئے جو کچھ اس میں ہے کفایت کرتا ہے پس اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہو تو اللہ تعالی ہر روز کی روزی تمہارے لئے ضرور مہیا کرتا ہے اور اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہی نہ ہو تو پھر کیوں اس کی فکر کرتے ہو جو تم سے مربوط ہی نہیں!
            حضرت علی علیہ السلام ہر دن کی روزی کے بارے میں فکرمند رہنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: روزی کی فکر صرف اسی دن کے لئے کافی ہے۔ انسان ہردن کی روزی کی فکر اسی دن کرے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب انسان پوری زندگی کی روزی کی فکر آج ہی کرے؛ لیکن انسان اگر صرف آج کی فکر کرے اور آئندہ کی روزی کی فکر چھوڑ دے تو نہ آج کے کام سے رہ جائے گا اور نہ ہی شادی کرنے سے گھبرائے گا۔

 

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
(۱) .سورہ نورْ32۔
(۲) مستدرک الوسایل، ج14، ص 172، نوری، حسین بن محمد تقی، مؤسسہ آل البیت علھیم السلام لاحیاالتراث، بیروت – لبنان، 1408 ق یا 1987 م۔
(۳)من لا يحضره الفقيه , جلد۳ , صفحه۳۸۵ ، کتاب النکاح،ابن بابویہ، محمد بن علی،جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم، مؤسسة النشر الإسلامي، قم – ایران، 1363 ش یا 1404 ق، چاپ دوم
(۴) .بقرہ،268۔
(۵) من لا یحضره الفقیه ج۳ ص۳۸۷، کتاب النکاح،ابن بابویہ، محمد بن علی،جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم، مؤسسة النشر الإسلامي، قم – ایران، 1363 ش یا 1404 ق، چاپ دوم
(۶) مستدرک الوسایل، ج14، ص 173، نوری، حسین بن محمد تقی، مؤسسہ آل البیت علھیم السلام لاحیاالتراث، بیروت، بیروت – لبنان، 1408 ق یا 1987 م۔
(۷) بحار الانوار،ج 74،ص68، محمدباقر مجلسی، بیروت، موسسه الوفا، سوم، ۱۴۰۳هـ
(۸) غرر الحکم و درر الکلم، ج 1، ص 523، ح9208،  آمدی، عبد الواحدبن محمد، دار الکتاب الاسلامی، قم، ۱۴۱۰قمری
(۹) غرر الحکم و درر الکلم , جلد۱ , صفحه۷۶۰،آمدی، عبد الواحدبن محمد، دار الکتاب الاسلامی، قم، ۱۴۱۰قمری

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
11 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 95