چکیده: اس مسئلہ کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی خاندان میں شادی کرنا صحیح نہیں ہے؟ کیا خا ندان کی شادی کے نقصانات ہیں؟
بعض معاشروں میں یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرتی نظر آرہی ہے کہ اپنے خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہئے، اس کے کچھ نقصانات ہیں؛ لیکن اس مسئلہ کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی خاندان میں شادی کرنا صحیح نہیں ہے؟ کیا خا ندان کی شادی کے نقصانات ہیں؟ اہلبیت علیہم السلام کی سیرت اس بارہ میں کیا کہتی ہے؟ اس مسئلہ کا جواب، کسی سوال کرنے والے کے سوال کے جواب کو پیش کرتے ہوئےدینگے:
سوال:
سلام علیکم، میری خالہ کی ایک بیٹی ہے جو بہت اچھی لڑکی ہے؛ اخلاق، کردار، پردہ، تعلیم کے لحاظ سے بہت باکمال ہے؛ لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ، نسلی نقصانات کے پیش نظر،خاندان میں شادی کرنے سے ہوشیار کرتے رہتے ہیں، میں اس سے رشتہ کرنے کے سلسلہ میں مردد اور شک میں پڑ گیا ہوں، برائے مہربانی، میری رہنمائیی کیجیئے، کیا خاندان میں شادی کرنا، مشکل میں پڑنے کا سبب ہے؟
جواب:
علیکم السلام
بعض اوقات ہم لوگ بچپن میں پیش آنے والے مسائل سے متأثر ہو کر، کچھ ایسے عقائد بنا لیتے ہیں کہ جس کا اثر پوری زندگی میں رہتا ہے اور ہم مشکلات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں، اور ہمارے افکار اور احساسات کچھ غیر منطقی اور کمزور دلائل کے سبب، فیصلہ لینے کے وقت تشویش اور تردید کی حالت سے روبرو ہوتے رہتے ہیں۔
خاندان میں شادی کرنے کے بارہ میں یہ کہیں گے کہ ہمارے لئے یہ روشن ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ اور اہلبیتؑ کے اقوال اور انکی سیرت ہمارے لئے حجت ہے۔ اگر خاندان کی شادی سے شوہر و زوجہ یا انکی نسل کے لئے کوئی خطرہ لاحق ہوتا تو یقینا ہمارے معصومینؑ ہمیں ایسا کرنے سے روکتے اور خود بھی پرہیز کرتے۔پیغمبر اسلامؐ اور اہلبیتؑ کی سیرت تو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ خاندان کی شادی کا نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے کی نصیحت بھی کی ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے۔
اس سلسلہ میں رسول خداؐ اور اہلبیت اطہارؑ کے حکیمانہ اقوال بہت ہیں، ہم نے ان میں سے نبیؐ کی صرف اس روایت کا انتخاب کیا ہے، جو ہمارے دعوے کے لئے روشن دلیل ہے اور اہلبیتؑ کے رویہ کا معیار بھی ہے؛
رسول خدا(صلیاللهعلیهوآله وسلم ) نے امیرالمونین (علیه السلام) اور انکے بھائی جعفر ابن ابی طالبؑ کی اولادوں کی طرف دیکھ کر فرمایا: ہمارے بیٹے، ہماری بیٹیوں کے لئے ہیں اور ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹوں کے لئے ہیں[1]۔
اس کے علاوہ مؤرخوں نے بہت سے ایسے مواقع کا ذکر کیا ہے جس میں رسول خداؐ اور اہلبیت اطہارؑ نے خاندان کی شادی پر عمل کیا ہے یا دوسروں کی شادی کروائی ہے؛ ان موقعوں میں سے بعض یہ ہیں:
۔ امیر المومنین اور حضرت فاطمہ زہرا علیہما السلام کی شادی کہ جو حکم پروردگاراور پیغمبرؐ کے اردہ سے ہوئی۔
۔ عبداللہ ابن جعفر کی جناب زینب علیہم السلام سے شادی۔
۔ امام سجاد کی فاطمہ بنت امام حسن علیہم السلام سے شادی۔۔ جناب مسلم ابن عقیل کی رقیہ بنت امام علیؑ سے شادی۔
۔ محمد ابن جعفر کی جناب ام کلثوم بنت امیر المونینؑ سے شادی۔
یہ وہ بعض نمونے تھے کہ جن کی شادی، ایک تو یہ کہ خاندان میں واقع ہوئی اور سب ایک دوسرے کہ رشتہ دار تھے اور دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثر کے لئے پیغمبرؐ نے کسی ایک امامؑ کے ساتھ مل کر فیصلہ لیا ہے۔
البتہ ان نکات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ ہم ہر طرح سے خاندان میں شادی کی طرفداری یا تاویل کے درپے ہیں بلکہ ضروری ہے کہ شادی کے وقت طبی اصول و ضوابط اور نظافت کی پوری رعایت کی جائے اور جو افراد کسی بیماری میں مبتلا ہیں وہ یا تو اپنا علاج کریں یا آپس میں شادی کرنے سے پرہیز کریں۔
لہذا آپ کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اپنا پہلا قدم اٹھائیے اور اپنے رشتہ کی بات کیجیئے اور پھر بعض دوسرے طریقوں سے اطمینان حاصل کر کے شادی کیجیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] . من لا یحضره الفقیه، ج۳، ص۳۹۳
مأخذ : یہ مطالب، مندرجہ ذیل کتاب سے اخذ شدہ ہیں۔
- کتاب سیره تربیتی و اخلاقی پیامبر و اهلبیت(علیهمالسلام) در خانه و خانواده/ مصنف : اسدالله طوسی/ انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امامخمینی(ره).
Add new comment