اہل کوفہ کی اکثریت مذہبی معنوں میں ہمیشہ خلافتِ شیخین کے جائز ہونے کے قائل رہے۔ اہل سنت کے معروف عالم دین علامہ شبلی نعمانی اپنی شہرہ آفاق کتاب "الفاروق" میں کوفہ شہر کی تعمیر و ترقی کا سہرا خلیفہ دوم عمر کے سر ڈالتے ہوئےلکھتے ہیں:
مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن وقاص نے حضرت عمر کو خط لکھا کہ یہاںرہ کر اہل عرب کے رنگ و روپ بالکل بدل گئے۔ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلیمان حذیفہ نے کوفہ کی زمین انتخاب کی اور اسکا نام کوفہ رکھا۔ غرض 10 ه میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن مالک کے اہتمام سے عرب کے جُدا جُدا قبیلے جُدا جُدا محلوں میں آباد ہوئے۔ شھر کی وضع و ساخت 41 ہاتھ ، کے متعلق خود حضرت عمر کا تحریری حکم آیا تھا کہ شارع ہائے عام 41 ، 21 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 3 ، 31 ہاتھ اور 21 ، اور اس سے گھٹ کر 3 ہاتھ چوڑی ہوں ۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی تھی اس قدر وسیع تھی کہ اس میں 41 ہزار آدمی آسکتے تھے۔۔۔۔ جامع مسجد کے سوا ہر قبیلے کے لئے جُدا جُدا مسجدیں تعمیر ہوئیں ۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے اور قبائل جو آباد کئے گئے ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ سلیم ، ثقیف ، ہمدان ، بجبلۃ ، نیم الات ، تغلب ، بنو اسد ، نخ و کندہ ازد ، مزینہ ، تمیم محارب ، اسد و عامر ، بجالۃ جدیلۃ و اخلاط ، جہینہ ، مذحج ، ، ہواذن وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شھر حضرت عمر ہی کے زمانے میں اتنی اس عظمت وشان کو پہنچا کہ حضرت عمر اس کو راس اسلام فرماتے تھے اور در حقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا تھا.۔[الفاروق ، صفحہ 232 ۔ 233 ، مکتبہ مدینہ لاہور]
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے لوگ حضرت عمر کے اس حد تک وفادار تھے کہ عمر اس شہر کو اسلام کا مرکز کہنا شروع ہو گئے۔ اگر اب بھی نواصب کو کوئی شک ہو تو وہ ہمیں بتائیں کہ چالیس ہزار آدمیوں کی گنجائش والی جامع مسجد اور پھر ہزاروں کی تعداد میں بسائے گئے عرب قبیلوں کی الگ الگ مساجد جو حضرت عمر نے تعمیر کروائیں وہ سب شیعہ مساجد تھیں؟ کیا عمر ابن خطاب نے اتنے بڑے پیمانے پر ایک شیعہ شہر کی بنیاد رکھی تھی؟ ہمیں تاریخ کے کسی بھی معتبر دستاویز سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قتل امام حسین (ع) کے وقت کوفیوں کی اکثریت مذھبی اعتبار سے شیعان علی (ع) ہو اس کے برعکس ہمیں تاریخی شواہد ملتے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کوفہ کی اکژیت عثمانی تھے۔ علامہ یاقوت حموی اہل سنت کے مشہور اسکالر گزرے ہیں جو کہ کتاب "مجمع البلدان" کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں مختلف شہروں کی تفصیلی تاریخ موجود
ہے اور اس کی جلد 7 صفحہ 295 سے 311 تک کوفہ شھر کی تاریخ تحریر ہے اور اس میں بھی ہمیں شیعوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملتی۔
مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ
قتل عثمان کے بعد جن لوگوں نے مولا علی (ع) کی بیعت کی، وہ خلافتِ شیخین کو ماننے والے ہی تھے۔ مولا علی (ع) نے اس بات کو خود اپنے بیان میں واضح فرمایا جو کہ نہج البلاغہ میں درج ہے: میری بیعت کی انہی لوگوں نے جنہوں نے بیعت کی ابوبکر و عمر و عثمان کی، اسی اصول کی بنیاد پر جس پر ان کی بیعت کی تھی۔ لہذا اس اصول کے لحاظ سے موقع پر موجود رہنے والے کو دوبارہ نظرِ ثانی کا حق نہ تھا اور نہ ایسے شخص کو جو موجود نہ تھا اس فیصلہ کے مسترد کرنے کا حق پیدا ہو سکتا ہے اور شوریٰ مہاجرین و انصار کے ساتھ مخصوص ہے۔ کوفہ سے جو فوج عثمان کو قتل کرنے آئی تھی، اُس کا موقف بھی یہ تھا کہ عثمان چونکہ سنتِ شیخین کے خلاف گئے ہیں، اس لیے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور کوفہ کے لوگ حد درجہ طلحہ بن عبید اللہ کے حمایتی تھے۔ اس بات کی گواہی میں تاریخ طبری میں کئی روایات ہیں۔ مثلاً امام ابن جریر طبری نے احمد بن زہیر سے، انہوں نے اپنے والد سے، اور وہ وہب بن جریر سے، اور وہ زہری سے بیان کرتے ہیں کہ:
طلحہ و زبیر قتلِ عثمان کے تقریباً چار مہینے کے بعد مکہ پہنچ گئے۔ مکہ میں اُسوقت عبدالله ابن عامر کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے اور یمن سے یعلی بن امیہ بھی آ ملا جس کے پاس بہت سی دولت اور اموال تھا جو کہ چار سو اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ سب لوگ حضرت عائشہ کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورے کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ جا کر علی سے جنگ کرنی چاہئے، جبکہ دوسرے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اُن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ اہل مدینہ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ کوفہ یا بصرہ جائیں کیونکہ کوفہ میں طلحہ کے حمایتی اور چاہنے والے زیادہ ہیں۔ اور اسی طرح بصرہ میں زبیر کے حمایتی اور چاہنے والے موجود ہیں۔ چنانچہ آخر میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ بصرہ یا کوفہ چلنا چاہئے۔ اسی موضوع پر مزید کئی روایات پڑھنے کے لیے دیکھئے تاریخ طبری، سنہ 35 کے حالات۔ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں عقیدتی امامی شیعہ جمع ہونے شروع ہوئے۔ چنانچہ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں دو طرح کے شیعہ پائے جاتے تھے:
1. خلافتِ شیخین کو تسلیم کرنے والے سیاسی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور چوتھا خلیفہ تسلیم کیا تھا۔ یہی جماعت کوفہ میں اکثریت میں تھی۔
2. عقیدتی امامی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور رسول کا ولی و وصی براہ راست امام تسلیم کیا تھا اور خلافت شیخین کو رد کیا تھا۔ یہ چند گنے چنے لوگوں پر مشتمل ایک اقلیتی جماعت تھی۔ کوفی سیاسی شیعوں کا خلافتِ عثمان کو بھی جائز تسلیم کرنا کوفہ کے یہ سیاسی شیعہ خلافتِ شیخین پر تو جمع تھے ہی، مگر انکی اکثریت کا خلافتِ عثمان پر بھی کوئی اختلاف نہیں تھا کیونکہ اُن کے نزدیک عثمان ابن عفان کی بیعت انہی اصولوں کی بنیاد پر ہوئی تھی، کہ جن پر اس سے پہلے حضراتِ شیخین کی بیعت ہوئی تھی۔ اگر وہ عثمان ابن عفان کے مخالف ہوئےتھے تو اس بنیاد پر کیونکہ وہ
سنتِ شیخین کی مخالفت میں اپنے رشتہ داروں کو گورنر بنانے لگے۔ اور چونکہ مولا علی (ع) کی بطور خلیفہ چہارم بیعت بھی انہی اصولوں پر ہوئی تھی، اس لیے معاویہ کے خلاف وہ اپنے خلیفہ چہارم کی حمایت میں جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اس لیے جب ایک جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اہل کوفہ کے انہی اکثریتی سیاسی شیعوں کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے۔(حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، ص 189 مطبوعہ مصر)
جنگِ صفین میں جب فوجِ معاویہ کو شکست ہونے لگی اور عمر بن العاص کے مشورے سے معاویہ نے قرآن کو نیزوں پر بلند کروا دیا، تو یہی سیاسی شیعہ مولا علی (ع) پر تلواریں کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور جنگ بندی کی شرط رکھی۔ اور مالک اشتر جو عقیدتی امامی شیعہ تھے اور جنگ جاری رکھے ہوئے تھے اور فتح کے بہت قریب تھے، ان کی واپسی کی شرط رکھی۔ یہ واقعات آپکو تمام تر تاریخی کتب میں مل جائیں گے۔ جنگِ صفین کے بعد انہی خلافتِ شیخین کو ماننے والے کوفی سیاسی شیعوں کی ایک جماعت مولا علی (ع) کے خلاف بغاوت کر بیٹھی۔ اس خلافتِ شیخین کے ماننے والے گروہ کا نام خوارج تھا۔ جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد مولا علی )ع( اپنے ان سیاسی شیعوں سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کو وہ معاویہ کے خلاف جنگ میں ان کا گرم جوشی سے ساتھ دیں، مگر یہ لوگ سست پڑ گئے اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس پر مولا علی(ع) نے انکی کھل کر مذمت کی جو کہ نہج البلاغہ کے کئی خطبات میں پائی جاتی ہے۔ مولا علی (ع) کی شہادت کے بعد انہی خلافتِ شیخین کے ماننے والے سیاسی شیعوں نے امام حسن (ع) کا ساتھ بھی نہ دیا۔ اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے امام حسن (ع) کو معاویہ سے صلح کرنی پڑی۔
امام حسین (ع) کے زمانے میں کوفہ کے سیاسی شیعہ
امام حسن(ع) کی معاویہ سے صلح کے بعد معاویہ پوری سلطنت کا بلاشرکت غیرے مالک بن گیا اور اسکی یہ خلافت 21 سال کے طویل عرصہ پر محیط تھی۔ معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد جو اہم کام کئے، وہ یہ تھے کہ:
1. زیاد بن سمعیہ کو اپنا بھائی قرار دیا (اس بنیاد پر کہ معاویہ کا باپ ابو سفیان نے زیاد کی ماں سمعیہ سے زنا کیا تھا اور اسی زنا کی بنیاد پر زیاد پیدا ہوا تھا)
2. مولا علی (ع) کے زمانے میں زیاد کوفہ میں تھا اور اس لیے مولا علی (ع) کے تمام شیعوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔
3. معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو بھائی بنا کر اپنا طرفدار بنا لیا، اور پھر کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور پھر شاہ عبدالعزیز دھلوی کی الفاط میں اب زیاد نطفہ ناتحقیق کی شرارت دیکھئے کہ معاویہ کی رفاقت میں پہلا فعل جو اس سے سرزد هوا وہ جناب امیر کی اولاد کی عداوت تھی . تحفہ اثنا عشریہ، ص 318
4. زیاد بن سمعیہ نے کوفہ کے اُن تمام شیعوں کو (خاص طور پر مذھبی امامی شیعوں کو)، جو علی ابن ابی طالب کے سخت حامی تھے، چن چن کر قتل کیا۔ [حوالے: البدایہ
والنہایہ ، ج 3ص 51 ، حافظ ابن کثیر ، تاریخ کامل، ج 3 ص 245 ؛ ابن اثیر ،] تاریخ طبری، ج 6 ص 155 ، الاستیعاب ، ج 1 ص 138 علامہ عقیل بن حسین اپنی کتاب نصائح کافیہ، صفحہ 71 پر لکھتے ہیں: معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور بصرہ کو بھی اس سے ملا دیا۔ زیاد چونکہ حضرت علی کے زمانے میں کوفہ میں رہ چکا تھا وہ یہاں کے شیعوں سے واقف تھا۔ اس نے ہر پتھر اور ڈهیلے کے نیچے سے انہیں نکال کر قتل عام کی ، ان کو دهمکیاں دیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے ، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا دیں ، ان کو درختوں پر سولی دی ، ان کو عراق سے نکال دیا اور غریب الوطن بنا دیا یہاں تک کہ شیعوں کا کوئی معروف شخص کوفہ میں باقی نہ بچا. یہ تھا وہ سلوک جو کہ معاویہ کے دور میں شیعان علی نے جھیلا اور اس کی شدت یہ تھی کہ ایک نسل بعد جب زیاد کا بیٹا ابن زیاد گورنر بنا تو اس نے ھانی بن عروہ (جوکہ شیعہ تھے)سے کہا تھا:
ہانی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرا باپ جب اس شھر میں آیا تھا تو اس نے تمھارے باپ اور حجر کے سوا ان شیعوں میں سے کسی کو بھی قتل کئیے بغیر نہیں چھوڑا۔پھر حجر کا جو انجام ہوا وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 158 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی
اسی طرح حضرت ابن عباس نے امام حسین ع کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں ھانی اور دو چار اور شیعوں کے علاوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا، چہ جائیکہ کوفہ کی اکثریت اہل بیت کے امامی شیعوں کی ہوتی۔جب ابن عباس امام حسین (ع) کے پاس دوسری مرتبہ آئے تو انہوں نے کہا: برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے آپ کے ہلاک ہونے کا خوف ہے۔اہل عراق دغا باز ہیں۔ چنانچہ ہر گز ان کے پاس نہ جائیے۔ اس شھر میں قیام کریں کیونکہ آپ اہل حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بلاتے ہیں تو ان کو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی گھاٹیاں ہیں، ایک طویل و عریض ملک ہے ، وہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 176 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی
یہ تمام حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ معاویہ کے اس 21 سالہ طویل دور میں کوفہ کی عقیدتی امامی شیعی آبادی، جو کہ مولا علی(ع) کی شدید حامی تھی، تقریبا تمام کی تمام قتل کر دی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کوفہ میں پھر باقی کون لوگ رہ گئے تھے؟
تو جواب یہ ہے کہ کوفہ میں صرف وہ لوگ بچے جو کہ نہ صرف خلافتِ شیخین کے قائل تھے، بلکہ خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کی خلافت کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے میں بھی کوفہ کی اکثریت اُن سیاسی شیعوں پر مشتمل تھی جو کہ خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان ابن عفان کو بھی جائز مانتے تھے کیونکہ وہ اُسی اصولوں پر ہوئی تھی جس پر خلافت شیخین منعقد ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے جب عقیدتی امامی شیعہ جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اہل کوفہ کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے(حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، )ص( 189
مطبوعہ مصر)
مکتب خلفاء کے ماننے والے اہل کوفہ نے مولا علی اور امام حسین کا ساتھ کیوں دیا؟
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے میں بھی اہل کوفہ کی اکثریت خلافتِ ثلاثہ کی قائل تھی۔ اگر انہوں نے معاویہ کے خلاف مولا علی )ع( کا ساتھ دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مولا علی )ع( کی بیعت بطور خلیفہ چہارم انہی بنیادوں پر ہوئی تھی کہ جس پر حضراتِ شیخین کی بیعت عمل میں آئی تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اہل مدینہ کے لوگ عثمان ابن عفان کی خلافت کو جائز مانتے تھے، مگر پھر بھی جنگ صفین میں مولا علی (ع) کی صفوں میں کھڑے تھے کیونکہ وجہ وہی تھی کہ اُن کے نزدیک مولا علی (ع) کو انہی اصولوں پر مدینے کے اہل حل و عقد نے خلیفہ چہارم تسلیم کیا ہے کہ جن پر اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ کی خلافتیں منعقد ہوئی تھیں۔ امام حسین (ع) کے زمانے میں پھر اہل کوفہ نے (جو کہ اگرچہ کہ خلافتِ ثلاثہ کے قائل تھے) یزید کے خلاف امام حسین (ع) کا ساتھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے امام حسین (ع) کا ساتھ کیوں دیا، جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام بھی نہیں سمجھتے تھے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اہل کوفہ نے بہت سی وجوہات کی بنا پر امام حسین (ع) کو یزید پر فوقیت دی۔ ان میں سے چند وجوہات یہ ہیں:
1. اہل کوفہ عثمان ابن عفان کے دور سے ہی بنی امیہ کے گورنروں کے خلاف ہو گئے تھے۔
2. اسی وجہ سے انہوں نے عثمان ابن عفان کو خلیفہ ثالث مانتے ہوئے بھی اس کے خلاف فوجیں بھیجیں۔
3. وہ بنی امیہ کے چشم و چراغ امیرِ شام معاویہ کے خلاف رہے کیونکہ وہ جائز خلیفہ چہارم کے خلاف بغاوت کر بیٹھا۔
4. معاویہ کے حکم پر زیاد ابن سمعیہ نے اہل کوفہ پر ظلم و ستم کے دروازے کھول دیے۔ اہل کوفہ اس قتل و غارت کو نہیں بھول پائے۔
5. معاویہ نے زبردستی یزید کے لیے بیعت لے کر سنتِ شیخین کی مخالفت کی تھی اور پہلی مرتبہ خلافت کو موروثی بنا کر بادشاہت میں تبدیل کر دیا تھا، جبکہ یزید ابن معاویہ شرابی انسان تھا اور بہت سی بُری خصلتوں میں مبتلا تھا۔ یزید کے مقابلے میں امام حسین (ع) کی جیسی نیک شخصیت تھی کہ جن کے پاکباز ہونے پر سب گواہی دیتے تھے۔ تو یہ سب وہ وجوہات تھیں کہ اہل کوفہ نے امام حسین (ع) کو اللہ کا منتخب کردہ امام نہیں مانتے ہوئے بھی یزید کے مقابلے میں انہیں ترجیح دی، اور انہیں خط لکھے کہ وہ کوفہ آ کر انہیں بنی امیہ کے ظلم و ستم سے نجات دلوائیں۔
معاویہ کے دور میں کوفہ میں شیعانِ معاویہ کی جماعت
معاویہ کے 21 سالہ طویل دورِ حکومت میں کوفہ میں ایک اور جو تبدیلی آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو کہ شیعانِ معاویہ پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ معاویہ کے حکم سے منبرِ نبی سے اہل بیت پر سب و شتم کرتا تھا۔اس گروہ کی موجودگی کا سراغ اس خط سے بھی ملتا ہے جو کہ جناب مسلم بن عقیل کی آمد پر ان شیعانِ معاویہ (جو کہ اب شیعان یزید ہوچکے تھے) نے یزید کو لکھا تھا:
اما بعد فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفۃ فبایعۃ الشیعۃ اللحسین بن علی فان کان لک بالکوفۃ حافۃ فابعث الیھا رجلا قو یاینفذ امرک و یعمل مثل عملک فی عدوک فان لانعمان بن بشیر رجل ضعیف او هو یتضعف
مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں اور شیعوں نے اُن کے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپ کو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے۔ جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اس لئے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے ) وہ فطرتاً کمزور ہے۔ یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ہے۔
اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ہیں:
1. عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ
2. عمارہ بن عقبہ
3. عمر بن سعد بن ابی وقاص
یزید نے اس خط کے ملتے ہی ایک فرمان ابن زیاد (جو زیاد ابن سمعیہ کا بیٹا تھا) کے نام لکھا جسکی عبارت قابلِ دید ہے:
ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اہل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ
میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اور مسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو (طبری، جلد 6 صفحہ 211 )
محترم قارئین! پہچان تو لیا ہو گا یہ عمر ابن سعد بن ابی وقاص کون ہے جو اس خط کے لکھنے والوں میں ہے؟ بے شک یہ وہی سپہ سالار ہے جو حسین بن علی کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا۔ جس نے سب سے پہلا تیر لشکرِ حسین کی طرف چلایا تھا(طبری جلد 6 صفحہ 245 ) اور اسکا شیعانِ یزید میں سے ہونا ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جسے سوائے ناصبی آنکھوں کے ہر دوسری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ چنانچہ، امام حسین (ع) کے زمانے تک کوفہ میں جو مختلف گروہ تھے، انکی تفصیل یوں ہوئی:
1. شیعانِ عثمان (بنی امیہ)، جو کھل کر اہل بیت پر سب و شتم کرتے تھے اور یزید کی حکومت کے لیے مستقل بطور جاسوس کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پہلے تین خلفاء کی خلافت کے قائل تھے جبکہ مولا علی )ع( کی خلافت کو انہوں تسلیم نہیں کیا۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے:
عثمانی شیعہ علی کو منبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے
منہاج السنہ ، ج 1 ص 178
کوفہ میں موجود سرکاری فوج (جس کو معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد روانہ کیا تھا) کا تعلق بھی اسی گروہ سے تھا۔ یعنی یہ سرکاری فوج بنیادی طور پر شام سے لا کر یہاں آباد کی گئی تھی۔
2. عام اہل کوفہ، جنہیں سیاسی معنوں میں )شیعانِ عثمان کی رد میں( شیعانِ علی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتی طور پر پہلے تین خلفاء کی بجائے چار خلفاء کے ماننے والے تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھا۔
3. اہل بیت علیھم السلام کا خصوصی شیعانِ خاصہ کا گروہ، جو عقیدتی امامی شیعہ تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اقلیت میں رہ گیا تھا۔
قارئین کرام، کربلا کے واقعات کو سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ آپ کوفہ میں موجود ان تین گروہوں سے اچھی طرح تعارف حاصل کر لیں۔
قاضی نور اللہ شوستری کا بیان کہ اہل کوفہ کی اکثریت شیعہ تھی
آخر میں ہم ایک ناصبی بہانے کو بھی نقل کرتے چلیں۔ ناصبی حضرات شیعہ عالم دین قاضی نور اللہ شوستری کی ایک عبارت کو غلط انداز میں پیش کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اہل کوفہ خلافتِ شیخین کے ماننے والے نہیں بلکہ امامی شیعہ تھے۔ اس سلسلے میں وہ جو عبارت پیش کرتے ہیں، وہ یہ ہے:
قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین کے صفحہ 25 میں تصریح کر دی:
“اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنی ہونا خلافِ اصل ہے جو محتاج دلیل ہے، اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے۔”
پہلا جواب : قاضی صاحب کی یہ عبارت کربلا کے زمانے کی نہیں ہے۔ بلکہ ابو حنیفہ کوفی کا ذکر کر کے قاضی صاحب نے وہ وقت بتادیا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں (یعنی قاضی صاحب واقعہ کربلا سن 61 ہجری کی بات نہیں کر رہے، بلکہ
ابو حنیفہ کوفی کے عروج کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ اور ابو حنیفہ تو واقعہ کربلا کے وقت تو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
دوسرا جواب: ابو حنیفہ کے زمانے کے متعلق بھی یہ قاضی صاحب کی ذاتی رائے ہے۔ لہذا ناصبی حضرات کا یہ عذر اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس کی حمایت میں کوئی تاریخی روایت نہ پیش کریں۔
تیسرا جواب: ہم نے اہل سنت کی تاریخی کتب سے کئی روایات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ کربلا کے زمانے میں کوفہ میں الشیعہ خاصہ یعنی عقیدتی امامی شیعہ کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔ باقیوں کو زیاد ابن سمعیہ نے اپنی گورنری کے دور میں چن چن کر قتل کر دیا تھا۔
لہذا ناصبیوں کا قاضی نور اللہ شوستری کے اس قول واحد کو توڑ مروڑ کر عذر بیانی کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا، بلکہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ بےغیرت ناصبی کیسے عام اہل سنت مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔
Add new comment