شیعوں کی طرف یہ غلط نسبت دی جاتی ہے کے وہ صحابۂ کرام پر لعنت بھیجتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں جبکہ شیعہ صحابہ کی منطقی تقسیم بندی کے قائل ہیں۔
شیعہ صحابہ کی منطقی اور تاریخی تقسیم کے قائل ہیں جس طرح ہر نبی کے ساتھ لوگ اچھے اور برے ہوتے تھے ویسے ہی شیعہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد کے ساتھ رہنے والے بھی اچھے اور برے تھے۔ مثالاً دیکھئے اگر حضرت موسیٰ(ع) کے ماننے والوں میں سے کافی ساروں نے گوسالہ پرستی کی تو ان مشرکوں کو برا کہنا حضرت موسی(ع) کے تمام ساتھیوں کو برا کہنا نہیں۔ اسی طرح جب حضرت عیسی(ع) کے حواریوں میں سے ایک نے ان کے ساتھ دغا بازی کی تو اس ایک کو برا کہنا تمام کو برا کہنے کے مترادف نہیں، یونہی آنحضرت(ص) کے ساتھ بھی اچھے اور برے قسم کے لوگ تھے تو بروں کو برا کہنا سارے صحابہ کی گستاخی نہیں، ورنہ تو عبداللہ ابن ابی مشہور منافق جس کی نماز جنازہ اہلسنت کے مطابق رسول(ص) نے پڑھائی اس کو بھی برا نہیں کہنا چاہئے لیکن سب اس کو برا کہتے ہیں۔ یہی بات صحیح بخاری کی روایت میں وارد ہوئی ہے جس کا اہلسنت کا کردہ ترجمہ پیش خدمت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ نے جب بھی کوئی نبی بھیجا یا کسی کو خلیفہ بنایا تو اس کے ساتھ دو رفیق تھے ایک تو انہیں نیکی کے لیے کہتا اور اس پر ابھارتا اور دوسرا انہیں برائی کے لیے کہتا اور اس پر ابھار تا ۔ پس معصوم وہ ہے جسے اللہ بچائے رکھے (صحیح بخاری رقم ٧١٩٨) ۔
چنانچہ یہی تاریخی سنت رسول(ص) کے ساتھ بھی جاری رہی اور خود حدیث حوض کی تصریح کے مطابق بعض صحابہ کا رسول(ص) کے بعد دین سے بغاوت اختیار کرنا خود بخاری میں موجود ہے، اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی ۔ پھر وہ حوض سے دور کردےئے جائیں گے ۔ میں عرض کروں گا اے میرے رب ! یہ تو میرے صحابہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑلی تھیں ۔ یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے ۔ (صحیح بخاری رقم ٦٥٨٥)
تو ناظرین آپ نے ملاحظہ کیا کہ شیعی نظریہ صحابہ کے حوالہ سے بالکل حدیث و روایت اور عقل و عین منطق کے موافق ہے، اور یہ شیعوں کی طرف جھوٹی نسبت ہے کہ شیعہ ہر صحابی کو برا کہتے ہے۔
Add new comment