خلاصہ: قرآن کریم نے مختلف اقوام کے عقائد اور کردار کا تذکرہ کیا ہے اور پھر ان کا انجام بھی بتایا ہے تا کہ دوسری قوموں کے لئے درس عبرت بن جائے اور وہ اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کریں، ان قوموں میں سے ایک قوم اصحاب مدین ہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اصحاب مدین کی طرف مبعوث کیا تا کہ ان کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستہ پر لائیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مَدْیَن اس شہر کا نام ہے جس کے لوگوں کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تا کہ ان کو طرح طرح کے گناہوں سے منع کریں اور توحید پروردگار اور اللہ کی فرمانبرداری کی طرف ہدایت فرمائیں۔ قرآن کریم میں اس شہر کا نام ۱۰ بار اور ۷ سورتوں میں ذکر ہوا ہے۔ قرآن مجید میں لفظ مدین کو جب ترکیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تو دو سورتوں میں "اصحاب مدین" (سورہ توبہ، آیت ۷۰۔ سورہ حج، آیت ۴۴) اور دو سورتوں میں "اہل مدین" (سورہ طہ، آیت ۴۰۔ سورہ قصص، آیت ۴۵) کہا گیا ہے۔ اگرچہ لفظ مدین قرآن مجید میں ۱۰ بار ذکر ہوا ہے، لیکن کسی آیت میں اس کے وجود میں آنے کی کیفیت، تاریخی صورتحال اور جغرافیائی محل وقوع اور وہاں کے باشندوں کی تاریخ کے مختلف ادوار میں قومیت اور نسلی شناخت کے سلسلہ میں گفتگو نہیں ہوئی۔ اس شہر اور اس کے رہائشیوں کے بارے میں قرآن کریم کے بیانات بالکل منتخب، قومی پہلو سے تاریخی انداز سے ہٹ کر، توحید کے اہداف کے پیش نظر اپنے خاص انداز میں بیان ہوئے ہیں۔ تین مقامات پر اِس شہر کو یوں متعارف کروایا گیا ہے کہ جس کے لوگوں کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے: "وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا[1]"۔ ان تین مقامات اور ان کے بعد والی آیات (سورہ اعراف، آیت ۸۵ سے ۹۳ تک۔ سورہ ہود، آیت ۸۴ سے ۹۵ تک، سورہ عنکبوت، آیت ۳۶ سے ۳۷ تک) میں اصحاب مدین اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اصل داستان بیان ہوئی ہے، ان لوگوں کے باطل عقائد اور انحرافی اقدار، حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تبلیغ کی بنیادی باتیں اور طریقے، لوگوں کا آنحضرت سے برتاو کی صورتحال اور مومن و کافر گروہ کا انجام بیان ہوا ہے اور ان مضامین میں اہم مقصد، کافروں کو ڈرانا اور مومنین کو بشارت، یاددہانی اور تعلیم دینا ہے۔ سورہ توبہ اور سورہ حج میں بھی "اصحاب مدین" کے لفظوں سے اس شہر کے کافروں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے کے بعد عذاب الہی کے ذریعہ ان کی نابودی کا ذکر ہوا ہے۔ البتہ ان دو آیتوں میں اس قوم کے تذکرہ کا مقصد الگ الگ ہے۔ سورہ توبہ میں منافقوں کو ڈرانے اور روکنے کے مقصد سے یہ گفتگو ہورہی ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور تکلیف دینے سے باز آجائیں کیونکہ جو قوم، اِس وقت کے منافقوں سے دولت اور طاقت کے لحاظ سے بڑی تھی، وہ اپنے نبی کو جھٹلانے کی وجہ سے نابود ہوگئی، لہذا فرمایا: "لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَـٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ"[2]، "پیغمبر! اگر کوئی قریبی فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو یہ ضرور تمہارا اتباع کرتے لیکن ان کے لئے دور کا سفر مشکل بن گیا ہے اور عنقریب یہ خدا کی قسم کھائیں گے کہ اگر ممکن ہوتا تو ہم ضرور آپ کے ساتھ نکل پڑتے- یہ اپنے نفس کو ہلاک کررہے ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں" یہاں تک کہ فرمایا: "أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ"[3]، " کیا ان لوگوں کے پاس ان سے پہلے والے افراد قوم نوح,عاد,ثمود,قوم ابراہیم,اصحاب مدین اور الٹ دی جانے والی بستیوں کی خبرنہیں آئی جن کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے انکار کردیا- خدا کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے لوگ خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں"، لیکن سورہ حج میں مقصد، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے اور یہ کہ نہ صرف قریش کے مشرکین بلکہ بہت ساری سابقہ قومیں، جن میں سے ایک اصحاب مدین بھی تھے، انہوں نے اپنے پیغمبر کو جھٹلا یا: "وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ . وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ . وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ[4]"،" اور پیغمبر اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قوم نوح ,قوم عاد اور قوم ثمود نے یہی کام کیا تھا ۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے بھی ۔ اور اصحاب مدین نے بھی اور موسی کو بھی جھٹلایا گیا ہے تو ہم نے کفار کو مہلت دے دی اور پھر اس کے بعد انہیں اپنی گرفت میں لے لیا تو سب نے دیکھ لیا کہ ہمارا عذاب کیسا ہوتا ہے"۔
نیز سورہ ہود کی آیت ۹۵ میں اللہ تعالی نے قوم مدین کی ہلاکت، قوم ثمود کی ہلاکت جیسی بتائی ہے: "أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ"، "آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی"۔
قرآن کریم نے حضرت موسی (علیہ السلام) کا مصر سے مدین جانے کا تذکرہ کیا ہے: "وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ . وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ"[5] "اور جب موسی نے مدین کا رخ کیا تو کہا کہ عنقریب پروردگار مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت کردے گا ۔ اور جب مدین کے چشمہ پروارد ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلارہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں .موسی نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں"۔
اللہ تبارک و تعالی نے دو دیگر آیات میں اہل مدین کا تذکرہ فرمایا ہے، ایک آیت میں حضرت موسی (علیہ السلام) کا کئی سال مدین کے لوگوں میں زندگی بسر کرنے کو اللہ کی نعمتوں اور الہی امدادوں میں سے شمار کیا ہے جو آنحضرت کی بعثت اور اس شخص کے قتل ہونے سے پہلے اور غم سے نجات دینے کے لئے آنحضرت کو نصیب ہوئیں: "وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ"[6]، "اور تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تو ہم نے تمہیں غم سے نجات دے دی اور تمہارا باقاعدہ امتحان لے لیا پھر تم اہل مدین میں کئی برس تک رہے اس کے بعد تم ایک منزل پر آگئے اے موسی "۔ اس آیت کریمہ میں مقصد، اللہ کی ماضی میں امداد کی یاددہانی ہے تا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کو جو بعثت اور فرعون کو توحید کی طرف پکارنے کے حکم کے بعد خوفزدہ تھے، تسلی اور قلبی سکون دیدے۔
دوسری آیت میں پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گذشتہ قوموں اور انبیاء (علیہم السلام) کی خبروں سے مطلع ہونے کو اللہ کی رحمت کہا گیا ہے جو لوگوں کو انذار (ڈرانے) کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا گیا ہے، ورنہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مدین میں سے تو نہیں تھے: "وَلَـٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ .وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ[7]"، "لیکن ہم نے بہت سی قوموں کو پیدا کیا پھر ان پر ایک طویل زمانہ گزر گیا اور آپ تو اہل مدین میں بھی مقیم نہیں تھے کہ انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے لیکن ہم رسول بنانے والے تو تھے ۔ اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسی کو آواز دی لیکن آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت اور نصیحت حاصل کرلیں"۔
نتیجہ: اللہ تبارک و تعالی نے اصحاب مدین کا قرآن کریم میں کئی مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے۔ اس قوم کے نبی حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے، تاہم بعض دیگر انبیاء جیسے حضرت موسی (علیہ السلام) کو بھی اہل مدین کی یاددہانی فرمائی ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا ہے۔ آیات قرآنی، اس قوم کے نافرمان لوگوں کا انجام، عذاب الہی سے نیست و نابود ہوجانا بتا رہی ہیں، یہ عذاب دیگر لوگوں کو اس لیے بتایا گیا ہے کہ دوسری اقوام اصحاب مدین کے ناز و نعمت والی زندگی کے باوجود نافرمانی اور گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے عذاب الہی کی گرفت میں جکڑ جانے سے درس عبرت لے کر سیدھے راستے پر چلیں اور اس قوم کے گناہوں جیسے گناہوں سے دستبردار رہیں اور اطاعت پروردگار پر گامزن رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ اعراف، آیت 85۔ سورہ ہود، آیت 84، سورہ عنکبوت، آیت 36۔
[2] سورہ توبہ، آیت 44۔
[3] سورہ توبہ، آیت 70۔
[4] سورہ حج، آیات 42 سے 44 تک۔
[5] سورہ قصص، آیات 22، 23۔
[6] سورہ طہ، آیت 40۔
[7] سورہ قصص، آیات 45، 46۔
Add new comment