خلاصہ: خداوند متعال نے انسان کو اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ اس سے محبت کرے اور اگر انسان خدا سے محبت کرنے لگے گا تو کبھی بھی وہ اس دنیا کی سختی کو سخت تصور نہیں کرے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند متعال اپنے بندوں کے لئے سختی نہیں چاہتا بلکہ وہ ان کے لئے آسائش اور سکون کو پسند کرتا ہے، جس کے بارے میں خود قرآن مجید میں فرما رہا ہے: «یُرِیدُ اللّهُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ[سورۂ بقرہ،آیت: ۱۸۵] خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا»،۔
کیونکہ خداوند عالم نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ انسان پر رحم کرتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرما رہا ہے: «یُرِیدُ اللَّهُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیفًا[سورۂ نساء، آیت:۲۸] خدا چاہتا ہے کہ تمہارے لئے تخفیف کا سامان کردے اور انسان تو کمزو ر ہی پیدا کیا گیا ہے»،
خداوند متعال اپنے بندوں کے عذر کو قبول کرتا ہے اور انہیں معاف کرتا ہے کیونکہ بندہ جب خدا کی بارگاہ میں کریہ و زاری کرتا ہے اور گڑگڑاتے ہوئے پکارتا ہے: « رَبِ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي[بحار الانوار، ج:۱۳،ص:۳۲] اے پروردگا میں نے اپنے اوپر ظلم کیا مجھے بخش دے، خدا بھی اس کے جواب میں کہتا ہے: «نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ[سورۂ حجر، آیت:۴۹] میرے بندوں کو خبر کردو کہ میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں»۔
*بحارالانوار، محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق.
Add new comment