اسلامی روایات میں شہادت کو سب سے بڑی خوبی کہا گیا ہے، مسلمانوں کے نزدیک شہادت کو ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت حاصل تھی بعض اوقات موت کو شہادت سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے کہ شرافت مندانہ موت کو شہادت کی موت کہا جاتا ہے. اور اس کے علاوہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے کوشش کرتے وقت قتل ہونے والے کو بھی شہید کہتے ہیں۔
خدا کی راہ میں قتل ہونے والے کو شہید کیوں کہتے ہیں اس کے بارے میں مختلف اقوال بتائے گئے ہیں من جملہ یہ ہیں:(۱)رحمت الہی کے فرشتے اس کی فداکاری اور جانبازی کے گواہ ہیں.(۲)خدا اور فرشتے اس کے بہشت میں داخل ہونے کی گواہی دیں گے.
(۳) شہید شہادت کے وقت (شاہدہ) زمین پر گرتا ہے.(۴)اور وہ اپنے پرودگار کے نزدیک زندہ اور حی ہے.(۵)وہ خداوندی ملک و ملکوت کو مشاہدہ کرتا ہے۔ [ دائرة المعارف، ج۱۰ ص۶۲۲۔ مجمع البحرین، ج۳، ص۸۱]
پانی سے نہانے والاکپڑے بدلتا ہے، پسینے سے نہانے والا تقدیر بدلتا ہے اور خون سے نہانے والا تاریخ بدلتا ہے؛ جب اس سے پہلے کے ظالمین نیست ونابود ہو گئے، تو یہ کیا رہیں گے؟ اور مظلوم وشہید ہمیشہ باقی رہےگا۔ اسی لیے ارشاد ہے: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـہِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُونَ(آل عمران ١٦٩) ترجمہ: اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔
علمدار ولایت جنرل قاسم سلیمانی اور شہدائے استقامت اسکی بارز مثال ہیں۔
Add new comment