شہید اور شہادت

Sun, 04/16/2017 - 11:17

چکیده:شہادت یعنی خدا کی راہ میں جان دینا، اور یہ خدا سے قربت کا بہترین راستہ ہے۔

شہید اور شہادت

معنی شہادت

شہادت یعنی خدا کی راہ میں جان دینا، خدا سے قربت کا بہترین راستہ؛

لفظ ’’شہادت‘‘ کا معنی، مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا ہے اور  یہ  حاضر ہونا ممکن ہے بصارت کی صورت میں ہو یا ممکن ہے بصیرت کے ذریعہ۔

دینی اصطلاح میں شہادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان راہ خدا میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی جان دیدے۔

شہید کہے جانے کی وجہ

ایسے شخص کو ’’ شہید‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ شہادت کے بعد فرشتے اس کے سرہانے حاضر ہوتے ہیں یا یہ کہ شہید کی روح، شہادت کے بعد اللہ کے حضور حاضری دیتی ہے۔(۱)

لفظ شہید، قرآن اور روایات میں

قرآن کریم میں کسی مقام پر بھی لفظ شہید اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ قرآن نے شہید کی طرف اشارہ کرنے کے لئے «قُتِلْتُمْ فی‌ سَبِیلِ اللَّهِ» جیسی عبارت کا استعمال کیا ہے۔مگر لفظ ’’شہید‘‘ اپنے اصطلاحی معنی میں، پیغمبر اسلامؐ اور دیگر اماموںؑ کی حدیثوں میں بہت استعمال ہوا ہے۔(۲)

شہادت کا حقیقی مصداق اور مقام،دین کے دشمن کے ساتھ معرکۂ جہاد پر قتل ہونا ہے؛ لیکن روایتوں میں یہ بھی ہے کہ بعض دیگر حالات میں جان دینا بھی، شہادت کا مرتبہ اور اجر رکھتا ہے؛ جیسے کوئی آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کے ساتھ اس دنیا سے جائے یا کوئی اپنی جان، مال اور ناموس کے دفاع کی حالت میں قتل ہو جائے، تو اسے شہادت کا مرتبہ عطا ہوتا ہے۔(۳)

شہید کی خصوصیت

شہید، آگاہی اور خلوص کے ساتھ حق کا ساتھ دیتا ہے اور باطل سے جنگ کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اور اسی وجہ  سے شہادت کو عزت کی موت یا شرافتمندانہ موت سمجھا گیا ہے۔

قرآن مجید میں واضح طور پر شہدا کی منزلت بیان ہوئی ہے کہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے نزدیک رزق سے مالا مال ہو رہے ہیں(۴)۔ انبیاء، ائمہ اور علماء کے بعد شفاعت کا حق، شہدا کو بھی حاصل ہوگا لہذا شہدا بھی  خدا کے نزدیک، دوسروں کی شفاعت کروا سکتے ہیں(۵)۔ شہدا کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ معرکہ میں زخمی ہوں اور وہیں پر شہید ہو جائیں تو  ان کے بدن کے لئے غسل و کفن کی ضرورت نہیں ہے، شہید کا بدن اس حالت میں پاک ہے۔

شہادت، شیعوں کے نزدیک

شیعوں کے نزدیک، شہادت بہت عظیم مقام رکھتی ہے۔ شیعوں کے گیارہ معصوم امام علیہم السلام، سب کے سب کسی  نہ کسی طرح شہید ہوئے ہیں اور کسی کو بھی قدرتی موت نہیں ملی ہے(۶)۔

شیعوں کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام اپنی شہادت کے وقت فرماتے ہیں:’’ کعبہ کے رب کی قسم، میں کامیاب ہوگیا‘‘(۷) اور امام حسین علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ’سید الشہدا‘‘ ہے۔ یہ  سب شیعوں کے نزدیک مقام و منزلت شہادت کو عیاں کرتا ہے۔شیعوں کا اعتقاد ہے کہ’’شہدا‘‘ آخرت میں بلند اور اعلی مرتبہ کے حامل ہونگے۔وہ لوگ جس وقت اپنی جان دیتے ہیں اسی وقت تمام گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں(۸)۔

خداوند عالم اس منصب کے مستحق اور لائقمند افراد کو اس درجہ پر فائز کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے:

۱۔کشّاف، ج۱، ص۷۳۹.
۲۔مجموعه آثار استاد مطهّری، ج۲، ص۴۵۴.
۳۔ آل عمران/سوره۳،آیه۱۶۹.
۴۔ بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۱۲.
۵۔میزان الحکمة،ج۲، ص ۱۵۱۶ و ۱۵۱۷.
۶۔بحارالانوار، ج۲۷، ص۲۱۷.    
۷۔بحارالانوار، ج۴۲، ص۲۳۹.    
۸۔تفسیر نور الثّقلین، ج۱، ص۵۱۷.    

منبع

پژوهشکده تحقیقات اسلامی، فرهنگ شیعه، انتشارات زمزم هدایت. ص۳۱۵-۳۱۷.    

www.wikifeqh.ir

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86