اسلام سے پہلے جاہلیت کے ایام میں عرب لڑکی کو اپنے لئے بدنامی کا سبب مانتے تھے، لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اس نے اس بدعت سیّئہ سے مقابلہ کیا اور خواتین کو عزت کا مقام عطا کیا، لیکن یہ جاہلانہ روایت کچھ عرب ممالک جیسے کہ سعودی عرب میں اسلام کے چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی برقرار ہے، وہ خواتین کو ذلیل کرتے ہوئے ان کے ساتھ جاہل عربوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں عرب لڑکی کو اپنے لئے بدنامی سمجھتے تھے، یہاں تک کہ نوزائیدہ بچی کو زندہ ہی دفن زمین کے نیچے دفن کردیتے تھےاور انکی جان لے لیتے تھے! ایک لڑکی کےعرب باپ کو اس بات کا خوف رہتا تھا کہ لڑکی کے زندہ رہنے سے اسکی بدنامی ہوگی اور لڑکی خجالت اور شرم کا باعث ہے، بچیوں کو زندہ دفنا دینے کا یہ مذموم رواج، اگرچہ اس دور میں عام نہیں تھا، لیکن کچھ قبائل ایسا کرتے تھے جیسا کہ ایک عرب شاعر نے فخر سے کہا ہے:سَمَّیْتُها إِذا وُلِدَتْ تَمُوتُ *** وَ الْقَبْرُ صِهْرٌ ضامِنٌ ذَمِیْتُ؛ «میں نے اس بچی کا نام اسکی پیدائش کے وقت «تاموت» رکھا تھا۔ (یعنی کہ جیسے ہی پیدا ہو ویسے ہی فوت ہوجائے) اور قبر، میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے اور اسے خاموش کردیا ہے»۔[تفسیر نمونه]
لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اس برے رواج کا مقابلہ کیا اور عورتوں کو انسانی دنیا کی حقیقت کا حصہ بناتے ہوئے عورتوں کےخلاف ان تمام نظریات، توہینوں، اور ان طعنوں کو مسترد کردیا، اسلام نے عورتوں کو اس حد تک عزت دی کہ خواتین کو صبح سے شام تک جب بھی وہ چاہیں مساجد میں آنے جانے کی کھلی چھوٹ اور اجازت دی اور انہیں مردوں کی طرح ہی مذہب کی تعلیم سے آراستہ پیراستہ کیا، مردوں کے شانہ بہ شانہ انہیں جنگ میں شرکت کرنے کی اجازت ملی اور وہ جنگ کے میدان میں جاتی تھیں اور وہاں بیماروں اور زخمیوں کی دیکھ بھال میں مدد فراہم کرتی تھی یہاں تک بعض اوقات مردوں کو وعظ و نصیحت بھی کرتی تھیں اور....[پسماندگی کی وجوہات]
لیکن زمانۂ جاہلیت کے وہ آداب و رسوم جو عربی ذہنوں میں جڑ پکڑے ہوئے تھے، اب موقع ملتے ہی پھر سے زنده ہونے لگے کیونکہ خواتین سے متعلق اسلامی تعلیم کو انکے لیے قبول کرپانا مشکل تھا، لہذا انہوں نے دوبارہ خواتین کے حقوق کو چھیننے کی کوشش کی، اور اسلام کے چودہ صدیوں کے بعد بھی، ابھی بھی کچھ عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب میں، خواتین کو سفر، ڈرائیونگ، ووٹنگ، وغیرہ [خبرگزاری تسنیم] جیسے بہت سے حقوق سے وہ محروم ہیں، اور سعودی افراد گزشتہ جاہل عربوں کی روایت اپنائے ہوئے ہیں اور خواتین کو ناخواندگی اور پسماندہ زنجیروں میں لپیٹنے کی کوشش کررہے ہیں! سعودی معاشرے میں خواتین اس کمزوروں اور لاچار بڑھیا کی طرح ہے کہ جو بس لازمی طور پر سعودی مردوں کو مطمئن کرنے کا کام کریں!
منابع:
[1]. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، دارالکتب الاسلامیه، تهران، 1376ش، ج26، ص178.
[2]. غزالی، محمد، چرا عقب مانده ایم، مترجم: مولود مصطفایی، نشر احسان، تهران، 1390ش، ص30-32.
[3]. خبرگزاری تسنیم، شناسه خبر: 1047637، تاریخ انتشار: 25/فروردین/1395.
Add new comment