خواتین کی تعلیم و تربیت امام خمینیؒ کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:علم حاصل کرنا خواتین کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں پر ضروری ہے اس بات پر شاہد پیغمبر اسلام کی حدیث: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے نیز اس بات پر علماء کے اقوال بھی ہیں۔

خواتین کی تعلیم و تربیت امام خمینیؒ کی نگاہ میں

ر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کسی صفت و کمال سے وہ دل کی صفائی‘ فراخی اور وسعت حاصل نہیں کرسکتا جو علم کی بدولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو تخلیق انسانی کے ظہور سے شروع ہوا۔ خدا وند عالم نے جناب  آدم علیہ السلام کو تمام مفید انسانی علوم کی تعلیم فرمائی۔ پھر یہ علوم نسل انسانی میں منتقل ہوتے رہے اور آج علوم کی بے شمار شاخیں ہیں۔
الغرض کہ علم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ علم ایک قیمتی گوہر کا نام  ہے۔ ایک لازوال دولت ہے اور خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا حاصل کرنا وجہ امتیاز، فضیلت ، شرف اور سعادت مندی ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ اس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا و آخرت سنورتی ہے۔
آج ہم پستی کی طرف جارہے ہیں اور زوال کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل علم کی عطا کردہ بصیرت اور لذت سے محروم ہے۔ علم کے نتیجے میں نیک و بد اور خوب و ناخوبکی جو تمیز پیدا ہونی چاہئے‘ اس کا بھی فقدان ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں فرق کرنا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جبکہ کئی احادیث میں اس مسئلہ کی طرف بنی انسان کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ چنانچہ معلم کائنات سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: طَلَبُ‏ الْعِلْمِ‏ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَة[1] یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرض ہے۔
معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت پر بھی علم کا حصول فرض ہے۔ خواتین پردے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اسلام نے انہیں تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔ لیکن حدود توڑنے کی صورت میں بغاوت کے زمرے میں آئیں گی۔
معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔جس طرح سے مردوں کے جاہل رہنے سے سماج میں فساد برپا کا خطرہ لاحق رہتا ہے ویسے ہی اگر خواتین بھی جاہل رہیں تو اس سے بڑے اور زیادہ مضرات سامنے آئیں گے ، اس لئے کہ اگر مرد جاہل رہے تو ممکن ہے کہ خطرہ باہر سماج میں رہے لیکن اگر عورت جاہل رہے تو پھر خطرہ باہر نہیں خود گھر کے اندر رہتا ہے جو بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ۔
عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری جو بتائی جاتی ہے وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی پروش ہے ، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر مربی ہی جاہل ہو تو تعلیم و تربیت کا کیا عالم ہو گا؟؟

اسی نکتہ کی طرف امام امام خمینیؒ نے فرمایاتھا:
’’آپ خواتین ماں ہونے کا شرف رکھتی ہیں۔ اس عظمت میں آپ مردوں سے آگے ہیں۔ آپ پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اچھی ماں اچھے بچے تربیت کرتی ہے۔ خدانخواستہ اگرماں گمراہ ہوتو اس کی گود سے بچے بھی برے ہی پروان چڑھتے ہیں گے۔‘‘اسی طرح اپنے ایک اور بیان میں اسلام نے عورتوں کوجواہمیت دی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قم کی خواتین سے ملاقات کے دوران آپ نے ان کوخطاب کرتے ہوئے کہاتھا: ’’مردوں نے آ پ کی گود میں پرورش پائی ہے۔ آپ مردوں کی مربی ہیں آپ اپنی اہمیت کو پہچانئے۔ اسلام آپ کی اہمیت کو پہچانتاہے۔‘‘[2]
اسلام نے ماں کو جوعظمت ورتبہ دیاہے کہ اس کے پیروں تلے جنت ہے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے امام خمینیؒ فرماتے ہیں۔ ـــ’’مائوں کے ان گنت حقوق شمار کیے جاسکتے اور ان کا حق پوری طرح ادا نہیں کیاجاسکتا۔ اپنے بچے کے لئے ماں کی ایک رات ذمہ دار باپ کے لئے سالوں سے بڑھ کر ہے۔ ماں کی نگاہوں میں پیار اور رحمت کا مجسم ہونا رب العالمین کے پیار ورحمت کا جلوہ ہے۔ خدا نے ماں کے دل کو اپنے نوراور رحمت سے اس طرح مزین کیاہے کہ قلم اس کے بیان سے عاجز ہے۔ اس کا علم فقط مائوں کوہی ہوسکتاہے۔ یہ وہ دائمی رحمت ہے کہ جس نے مائوں کو ان مشکلات کے سامنے عرش کی طرح مستحکم بنادیا ہے جو مشکلات شکم مادر میں بچے کی نشودنما کے وقت اورا س کے بعد بچپن میں پیش آتی ہیں ایسی مشکلات جن کو باپ ایک رات بھی برداشت نہیں کرسکتا اور ان کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت بھی نہیں ہے یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو یہ ایک حقیقت ہے۔‘‘[3]

اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔

 

 

....................................................................................................

حوالہ جات

[1] بحار الانوار، ج ۱، ص۱77۔

[2] صحیفه امام خمینیؒ ، ج16، ص300

[3] صحیفه امام خمینیؒ ، ج16، ص225

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 58