خلاصہ:جو شخص ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس زیارت کے لیے جائے اور کہے اے میرے مولا یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں یہاں آوں تو ایسا شخص زیادہ نورانیت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ درست ہے کہ کربلاء کی زیارت عقیدت شوق اور محبت سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ جاری رہنا چاہیے، اور ذمہ داری کا یہ احساس، شوق کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اگر ہو تو اہل بیت(علیھم السلام) کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کوئی یہ نہ سونچےکہ جب ہم ذمہ داری کی بات کرتے ہیں تو یہ ذمہ داری اہل بیت(علیھم السلام ) سے جو ہم عشق و محبت رکھتے ہیں اس سے جدا ہے یقینا جو شخص ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس زیارت کے لیے جائے اور کہے اے میرے مولا یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں یہاں آوں تو ایسا شخص زیادہ نورانیت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: غریب انسان سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور جائیں اور مالدار سال میں دو مرتبہ[بحار الأنوار، ج۹۸، ص:۱۴، ح:۱۳]، اور دوسری جگہ فرمارہے ہیں: امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو نہ جانے کا وقفہ بغیر کسی وجہ کے تین سال سے زیادہ کا نہ ہو[محمد بن زين الدين ابن أبي جمهور، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية، ج:۴، ص:۸۲]۔
یہ حدیث، اس زیارت کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کر رہی ہے کہ سبھی کو امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کے لئے اپنے اعتبار سے کوشش کرنا چاہئے۔
خصوصا آج کے دور میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کیونکہ آج کربلا میں اربعین کے موقع پر ہم سب کا جمع ہونا شیعت کی قدرت کا اظہار کرنا ہے جو ہمیں امام حسین(علیہ السلام) کی اس عظیم قربانی کے صدقہ میں نصیب ہوئی ہے۔۔
*محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، ج۹۸، ص:۱۴، ح:۱۳ ،۱۴۰۲ ق.
عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية، محمد بن زين الدين ابن أبي جمهور، دار سيد الشهداء للنشر - قم،ج۴، ص۸۲،۱۴۰۵ ق.
Add new comment