اگر اہرمن کا وجود تسلیم کر لیا جائے تو ہم میں سے ہر ایک جھوٹ کا ایک مستند پیغمبر ہے۔ ہماری زندگی ہم پر نازل ہونے والا جھوٹ کا صحیفہ ہے۔ اور ہم خود اپنی امت ہیں، امت ِ شر، ایسی امتِ شر جس کے شر کا نشانہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔اسی ضمن میں قرآن و روایات کی روشنی میں مندرجہ ذیل نوشتہ کے توسط سے مختصراً جھوٹ کی مزمت ملاحظہ فرمائیں۔
آیت: ......إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ؛...... اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔[سوره مباکہ زمر آیت ٣]......إِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ......؛ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا۔۔۔۔[سوره مبارکہ غافر آیت٢٨]
حدیث:پیغمبراکرم صلّی الله عليہ و آلہ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى سَيِّدَنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و آله فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي خُلُقاً يَجْمَعُ لِي خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا تَكْذِب؛ایک شخص نے رسول خدا(ص) کی خدمت میں عرض کیا:مجھے ایک ایسے اخلاق کی تعلیم دیجیے کہ جسمیں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی موجود ہو، پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا:بس جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔[بحارالأنوار]امام على عليہ السلام: يَكْتَسِبُ الْكَاذِبُ بِكَذِبِهِ ثَلَاثاً سَخَطَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ اسْتِهَانَةَ النَّاسِ بِهِ وَ مَقْتَ الْمَلَائِكَةِ لَه؛جھوٹ بولنے والا، اپنے جھوٹ سے، خود اپنے لیے تین چیزیں خرید لیتا ہے:اپنے لیے خدا کی ناراضگی،اپنے لیے لوگوں کی تحقیر آمیز نظریں،اور اپنے لیے ملائکہ کی دشمنی۔[تصنیف غررالحکم و دررالکلم صفحه 221 حدیث 4418]امام صادق عليہ السلام: سِتَّةٌ لَا تَكُونُ فِي مُؤْمِنٍ الْعُسْرُ وَ النَّكَدُ وَ الْحَسَدُ وَ اللَّجَاجَةُ وَ الْكَذِبُ وَ الْبَغْيُ.چھ صفتیں مؤمن میں نہیں ہوسکتیں:سختگیری،بے خبری،حسد،ہٹ دھرمی،جھوٹ،اور تجاوز۔[تحف العقول صفحه 377]۔
قصہ: ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ میں نماز تو پڑھتا ہوں ،اور خلاف عفت و پاکیزگی کام بھی کرتا ہوں اور ساتھ ہی جھوٹ بھی بولتا ہوں، اب یہ بتائیے کہ میں ان دونوں برائیوں میں سے پہلے کس کو ترک کروں؟اللہ کے رسول(ص) نے فرمایا: جھوٹ کو پہلے چھوڑو چنانچہ اس شخص نے آپ کے سامنے اللہ سے جھوٹ نہ بولنے کا عہد کیا لہذا جیسے وہ آپ کی بارگاہ سے رخصت ہوکر چلا تو شیطان نے منافی عفت عمل کے انجام دینے کا وسوسہ اس کے دل میں ایجاد کیا لیکن وہ بلا فاصلہ اس فکر میں غرق ہوگیا کہ اگر میں کل رسول اللہ(ص) سے ملاقات کے لئے گیا اور آپ نے مجھ سے سوال کرلیا تو میں کیا کہوں گا اگر یہ کہا کہ میں نے یہ عمل انجام نہیں دیا ہے تو یہ تو جھوٹ ہوگا اور اگر سچ کہوں گا تو مجھے پر حد جاری ہوگی اور اسی طرح اس نے اپنے دیگر غلط کاموں کے بارے میں اس طرز تفکر کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنا شروع کیا تو جھوٹ کے ساتھ ساتھ اس نے دیگر تمام گناہوں کو بھی ترک کردیا۔[میزان الحکمه جلد11]
Add new comment