مومن کسی جانی یا مالی ضرر سے بچنے کی خاطر حق اور حقیقت کے اظہار سے خوداری کرتا ہے۔ اس کے جواز پر قرآنی، روائی اور عقلی دلائل موجود ہیں۔ منجملہ ان میں سے ایک عقلی توجیہ جو تقیہ کو جائز قرار دیتی ہے وہ انسان کا خود یا اپنی کمیونٹی کو مخالفین کی ظلم اور ستم سے بچانا ہے۔
تقیہ کے جواز پر عقلی دلیل سیرہ ٔعقلاء ہے جو ہر صورت میں دفع ضرر کو ضروری سمجھتی ہے۔[فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ص۳۷۷] اس دلیل کو قبول کرنے کی صورت میں تقیہ فقط شیعوں یا مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو شامل کرے گا، گزشتہ انبیاء اور خدا کے نیک بندوں کی زندگی میں تقیہ کے بہت سارے نمونے گذرے ہیں جیسے حضرت ابراہیمؑ کا کافروں کے ساتھ برتاؤ، حضرت یوسفؑ کی اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر میں ہونے والی گفتگو، آسیہ بنت مزاحم اور ہمسر فرعون کا مخفیانہ طور پر عبادت انجام دینا، حضرت موسیؑ اور ہارونؑ کا فرعون کے روبرو ہونا اور اصحاب کہف کا تقیہ کرنا۔[ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶] مذکورہ موارد میں تقیہ کا مودر تائید قرار پانا اضطراری موارد میں تقیہ کے فطری اور عقلی ہونے پر دلیل ہے۔
منابع:فاضل مقداد، مقداد بن عبداللّہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، چاپ محمد علی قاضی طباطبائی، قم ۱۳۸۰ ش۔ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء، المسَمّی ' عرائس المجالس، بیروت: المکتبہ الثقافیہ، بیتا۔
Add new comment