حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم

Fri, 07/26/2019 - 12:23

تقیہ کی مختلف حوالے سے تقسیم بندی کی جاتی ہے، شیخ مفید تقیہ کو اس کے احکام کے حوالے سے وجوب، حرمت اور استحباب میں تقسیم کرتے ہیں۔ بنابراین جہاں جان پر خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا واجب لیکن جہاں صرف مالی نقصان کا خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا مباح سمجھتے ہیں۔[ مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶]فقہاء تقیہ کے طور پر انجام پانے والے کسی عمل کے حکم وضعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر تقیہ کے طور پر انجام دیا جانے والا عمل عبادات میں سے ہو تو اس عمل کو اضطراری حالات کے برطرف ہونے کی بعد ادا یا قضا کے طور پر اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں فقہاء تقیہ کی صورت میں انجام دیئے جانے والے عمل کو مُجْزی سمجھتے ہیں۔[انصاری، التقیہ، ص۴۳]

حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم

واجب:احادیث اور فقہاء کے فتوا کے مطابق جہاں بھی اضطرار صدق آئے وہاں تقیہ کرنا واجب ہے۔[الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، ص۳۲۱ـ۳۲۲ ] فقہاء کے مطابق وجوب تقیہ کیلئے اہم ترین شرط [مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات] جسے احادیث سے استخراج کرتے ہیں [حرّعاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۰۳] اپنی یا اپنے متعلقین میں سے کسی کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ہونا ہے۔مستحب:شیخ انصاری اہل سنت کے ساتھ مدارا کرنا اور ان کے ساتھ معاشرت کرنا جیسے بیماروں کی عیادت، تشییع جنازہ اور ان کے مساجد میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ نماز پڑھنا وغیرہ کو مستحب تقیہ کا مصداق سمجھتے ہیں۔[انصاری، التقیہ، ص۳۹ـ۴۰] متاخرین اس طرح کے تقیہ کو احادیث کی تعابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے [مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۱، ۴۱۷ـ ۴۱۸، ۴۳۸ـ۴۴۱] "تقیہ مداراتی‌" کا نام دیتے ہیں اس معنی میں کہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب حتی مشرکین کے ساتھ حسن سلوک اور تسامح سے پیش آتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنا تاکہ مستقبل میں ان کے گزند سے محفوظ رہ سکیں۔تقیہ مباح:شیخ مفید نے تقیہ کو مالی نقصان کی صورت میں مباح قرار دیتے ہیں۔[مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶] فخر رازی نیز مالی نقصان کی خاطر تقیہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔[فخر رازی، التفسیرالکبیر، سورہ آل عمران کی آیت نمبر:۲۸ کے ذیل میں۔]تقیہ حرام:فقہا احادیث کی روشنی میں چند موارد میں تقیہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں؛ منجملہ یہ کہ دین کے واجبات اور محرمات جن کی رعایت کرنا ضروری اور لازمی ہے جن کی رعایت نہ کرنے سے دین ختم ہونے اور نابود ہونے کا خطرہ ہے جیسے قرآن کو محو کرنا، کعبہ کو ویران کرنا دین کے کسی ضروری حکم اصول دین یا فروع دین یا اصول مذہب کا انکار کرنا اس طرح تقیہ کرنا خون ریزی اور قتل و غارت تک منتج ہوتی ہیں وہ موارد ہیں جہاں تقیہ کرنا حرام ہے۔[بہ دلیل فَاِذا بَلَغَا لدم فَلا تَقیة]، شراب پینا، وضو میں جوتے پر مسح کرنا، اماموں سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی حرام تقیہ کے مصادیق میں سے ہیں۔ بعض فقہاء سوائے اضطراری حالت کے تقیہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔[ الرسائل، ج۲، ص۱۷۷ـ۱۸۴]۔
منابع:مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، چاپ عباس قلی ص.وجدی (واعظ چرندابی)، تبریز ۱۳۷۱، چاپ افست قم، بی‌تا۔انصاری، مرتضی بن محمد امین، التقیہ، چاپ فارس حسون، قم ۱۴۱۲۔شبّر، عبداللّہ، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، قم ۱۴۰۴۔فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، او، مفاتیح الغیب، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 43