خلاصہ: جب انسان نیکی کرنا چاہے تو نیکی کرنے کے لئے بعض نکات کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ اللہ کی بارگاہ میں نیک عمل قبول ہوسکے، ایسا نہیں کہ ظاہری طور پر نیک کام ہو لیکن جیسے بھی اسے انجام دیدیا جائے قبولیت کے لائق ہو۔
انسان بعض اوقات واقعی طور پر نیکی کرکے کسی کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے، مثلاً پیسہ، کھانے پینے کی چیزیں یا گھر میں استعمال کی چیزیں اپنی طرف سے یا کسی کی طرف سے ضرورتمندوں کو دینا چاہتا ہے، لیکن جب غور کرتا ہے کہ کس کو فائدہ پہنچائے تو اپنے آپ کو مرکز بنا دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ کون اس کے زیادہ قریب ہے، اور اس کا زیادہ احترام کرتا ہے، اور کل وہ اِس کی زیادہ خوشامد کرے گا لہذا یہ آج اسے فائدہ پہنچا کر کل اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پھر اپنے آپ کو نیک، اچھا اور ایماندار بھی سمجھ لیتا ہے۔ جبکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ کام نہیں کیا، بلکہ اپنی خاطر کیا ہے۔ حقیقی نیکی اور خالص عمل تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۶۵ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ"، " اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کی خاطر اور ثبات نفس سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو، جس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل دے اور اگر تیز بارش نہ ہو تو ہلکی پھوار بھی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے"۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۵ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ"، "لوگ آپ سے پوچھتے ہیں: کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو مال بھی خرچ کرو اپنے والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو کار خیر تم بجا لاؤگے یقیناً اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
* ترجمہ آیات از: بلاغ القرآن، مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
Add new comment