خلاصہ: جسم کی بھی موت ہے اور دل کی بھی، مگر دل کی جب موت ہوتی ہے تو جسم زندہ ہوتا ہے، لہذا دل کی موت کو جسم کی موت کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے۔
جسم کی موت اور دل کی موت کے درمیان بہت فرق ہے۔ جسم کی موت ان تکلیفوں اور مشکلات کا ختم ہونا ہے جو جسم سے انسان کو پہنچتی ہیں، اس پرندہ کی طرح جو پنجرہ سے اڑ جاتا ہے، لیکن دل کی موت ان بیماریوں سے تکلیف برداشت کرنے کی ابتدا ہے جو اس میں پائی جاتی ہیں اور ان برے صفات میں گرفتار ہونا ہے جن کو اس نے حاصل کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: "ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ"، "پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ جئے گا" [اعلیٰ، آیت ۱۳]۔
یعنی پھر وہاں پر نہیں مرے گا (کہ تکلیف نہ دیکھ سکے) اور نہ زندہ ہوگا (انسانی زندگی کی صورت میں کہ اس کے نتائج سے لطف اندوز ہوسکے)۔
نیز فرمایا: "أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا"، "اور کیا وہ شخص جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہے اور ان سے نکل نہیں سکتا" [انعام، آیت ۱۲۲]۔
یعنی کیا جو شخص مرگیا تھا (ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے) تو ہم نے اسے ایمان اور ہدایت کی حیات سے زندہ کیا ااور اس کے لئے ایک نور (یعنی ایسا علم جو ایمان سے جنم لیا ہے) ہم نے قرار دیا ہے تا کہ لوگوں میں چلے پھرے اس شخص کی طرح ہے جو (جہالت اور بے ایمانی) کے اندھیروں میں پڑا ہوا ہے اور ان سے نکلنے والا نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment