اجتماعی دعا کی اہمیت

Thu, 03/21/2019 - 19:54

جس وقت مومنین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دعا کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں خداوندعالم کی بارگاہ میں راز ونیاز ،توبہ اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور تمام لوگ اس کی بارگاہ میں دست گدائی پھیلاتے ہیں حقیقت میں ان کی دعا باب اجابت سے نزدیک ہوجاتی ہے، کیونکہ دعا کرنے والے اس مجمع میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا دل ٹوٹا ہوا ہو یا جو حقیر و بے نواہو یا کوئی خدا کا عاشق یا کوئی عارف ہوگا یا کوئی باایمان مخلص ہوگاجس کے اخلاص ،گریہ وزاری اور اضطرار اور نالہ وفریاد کی وجہ سے سب لوگ رحمت الٰھی کے مستحق قرار پائیں اور سب کی دعا مستجاب ہوجائے اور خداوندعالم کی مغفرفت کی بوچھار ہوجائے۔

اجتماعی دعا کی اہمیت

 اسلامی روایات میں وارد ہوا ہے کہ ہوسکتا ہے خداوندعالم اپنے ایک بندہ کی وجہ سے سب لوگوں کی دعا قبول کرلے اور اس کی گریہ وزاری کی وجہ سے تمام لوگوں پر رحمت نازل کردے، سب کی حاجتیں پوری کردے اور ان سب کو معاف کردے، اور ان کی خالی جھولیوں کواپنے مخصوص فیض و کرم سے بھر دے،اس سلسلے میں وحی الٰھی کے منبع علم الٰھی کی منزل معرفت کے خزانہ ، رحمتوں کے باب یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایات وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:”عَن ابی عَبدِاللّهِ(ع)قال:مَااجتَمَعَ اربَعَةٌ قَطُّ عَلی امرٍواحِدٍ فَدَعَوا إلّا تَفَرَّقواعَن إجَابَةٍ “حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب چار افراد مل کر کسی ایک چیز کے بارے میں دعا کرتے ہیں ، جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ان کی دعا قبول ہوچکی ہوتی ہے،(یعنی ان کے جدا ہونے سے پہلے پہلے ان کی دعا قبول ہوجاتی ہے)[ انیس اللیل، آیت اللہ شیخ محمد رضا کلباسی ،روح ،سوم۔]”قَال النَّبِیُّ(ص) :لا یَجتَمِعُ اربَعونَ رَجُلاً فی امرٍ واحِدٍ إلّااسْتَجابَ الّلهُ تَعالی لَهُم حَتّی لَو دَعَوْا عَلی جَبَلٍ لَازالُوهُ ۔ “حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: کوئی چالیس افراد مل کر کسی کام کے لئے دعا نہیں کرتے مگر یہ کہ خدا ان کی دعا قبول کرلیتا ہے یھاں تک کہ اگر یہ لوگ کسی پھاڑ کے بارے میں دعا کرےں تو وہ بھی اپنے جگہ سے ہٹ جائے گا۔[بحارالانوار،علامہ مجلسی،الوفاء ،بیروت، ۱۴۰۴ ھ ق۔]
عالم ربانی ، عارف عاشق ”ابن فھد حلّی“ اپنی عظیم الشان کتاب ”عدّة الداعی“ میں روایت نقل کرتے ہیں (جیسا کہ صاحب وسائل الشیعہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے):”إن الله اوحَی إلی عیسَی علیه ا لسلام : یا عِیسَی! تَقَرَّبْ إلَی المُومِنینَ،وَمُرْهُم ان یَدعُونِی مَعَکَ “”خدا وندعالم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ اے عیسیٰ! مومنین کے مجمع کے قریب ہوجاؤ اور ان کو حکم دو کہ میری بارگاہ میں تمھارے ساتھ دعا کریں“۔[بحر الحقایق،تفسیر سورہ یوسف۔]”عَن ابی عَبدَاللهِ علیه ا لسلام قالَ:کانَ ابی علیه ا لسلام إذا احْزَنَهُ امرٌجَمَعَ النِساءَ وَالصِّبیانَ ثُم دَعا وَامَّنُوا “”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ہمارے والد بزرگوار ہمیشہ اس طرح کیا کرتے تھے کہ جب کسی کام کی وجہ سے غمگین اور پریشان ہوتے تھے تو عورتوں او ربچوں کو جمع کیا کرتے تھے اوراس وقت آپ دعا فرماتے تھے اور وہ سب آمین کہتے تھے“۔[بحر المعارف،ملا عبدالصمد ہمدانی ۔]
نتیجہ:گویا ہم سب کو اجتماعی دعاؤں کی محافل و مجالس میں شرکت کرنا چاہیئے اور اسے اپنی زندگی کے حاشیے پر نہ رکھتے ہوئے اسے مرکز میں جگہ دینا چاہیے؛چونکہ عموما ہوتا یہ ہے کہ مجالس و محافل کے بعد جیسے ہی دعا شروع ہونے لگتی ہے ویسے ہی ہم گھر کی طرف بھاگنے کے لیے پوری طرح سے آمادہ نظر آنے لگتے ہیں اور اس حصہ پر کم توجہ دے پاتے ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 65