خلاصہ: خوف اور طمع کے ذریعے اپنے نفس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور حیا کے ذریعے بھی، مگر حیا کا ان سے فرق ہے، حیا میں ایسی خصوصیات ہیں جو خوف اور طمع میں نہیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حیا سے ایسی صفت وجود میں آتی ہے جو خوف اور طمع سے بالاتر ہے، وہ یہ ہے کہ انسان حیا کے ذریعے اپنے آپ کو منضبط کرتا ہے اور اپنے اوپر قابو پاتا ہے۔ یہ قابو پانا نہ ڈر کی وجہ سے ہے اور نہ لالچ کی بنیاد پر۔ بعض اوقات انسان خوف کی وجہ سے عمل کرتا اور اپنے کردار کو قانون کے مطابق منضبط کرتا ہے کہ خطرہ سے بچ جائے، یعنی مستقبل میں ایسا خطرہ ہے جو ہوسکتا ہے انسان کو پہنچے اور اسے تباہ کردے تو انسان اس خطرے کے شکار ہونے سے متاثر ہوکر ڈر جاتا ہے اور جو شخص کسی چیز سے ڈرے، اس سے فرار کرتا ہے، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: "من خاف شيئاً ھرب منه"، "جو شخص کسی چیز سے ڈرا اس نے اس سے فرار کیا"۔ جہنم، قبر اور قیامت کا عذاب اور گناہ کی سزا، سب اسی زمرے میں ہیں۔
نیز بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ طمع اور لالچ انسان کے عمل کا باعث بنے، اس صورت میں انسان کوشش کرتا ہے کہ جس اجر و ثواب کا اسے وعدہ دیا گیا ہے، اسے حاصل کرنے کے لئے، قانون کے مطابق اپنے کردار کو منضبط کرے، جیسا حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا فرمان گرامی ہے: "من رجا شيئاً طلبه"، "جس شخص نے کسی چیز کی امید رکھی، اسے طلب کیا"۔ بنابریں جنت اور نعمتوں کے وعدے اسی زمرے میں ہیں۔
پہلی کیفیت کو "غلامی" کہا جاسکتا ہے اور دوسری کیفیت کو "تجارت"، مگر "حیا" ایسی کیفیت ہےجو نہ خوف کی بنیاد پر ہے اور نہ طمع کی بنیاد پر، بلکہ اپنے نفس کی کرامت اور اللہ تعالیٰ کے احترام و اکرام کی بنیاد پر ہے، اس کیفیت کو "حیا" کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت خوف اور طمع سے اس لیے بالاتر ہے کہ اس میں محبت بھی پائی جاتی ہے، احترام اور اکرام بھی اور اپنے نفس کی کرامت بھی، جبکہ خوف اور طمع میں ایک طرح کے "قیدی" ہونے کی کیفیت ہے، مگر "حیا" میں ایسی قید سے "حریت اور آزادی" ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ]
Add new comment