جنت اور جہنم دو ایسے مقامات ہیں جو اپنے ساکنین کےلئےشرط و شروط کی قائل ہیں؛اسی ضمن میں مندرجہ ذیل حدیث اور اسکی مختصر تشریح پیش کی جاتی ہے۔
قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: حُفَّتِ اَلْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ وَ حُفَّتِ اَلنَّارُ بِالشَّهَوَاتِ؛ جنت سختیوں اور مشقتوں سے گھری ہوئی ہے اوردوزخ شہوات و لذات سے گھیر دی گئی ہے ۔[روضة الواعظین , ج 2 , ص 421]
تشریح:مطلب یہ ہے کہ معاصی ، یعنی جو اعمال انسان کو دوزخ میں پہنچانے والے ہیں ، ان میں عموماً نفس کی شہوت و لذت کا بڑا سامان ہے ، اور طاعات یعنی جو اعمال انسان کو جنت کا مستحق بنانے والے ہیں وہ عموماً نفسِ انسانی کے لیے شاق اور گراں ہیں اس لئےجو شخص نفس کی خواہشوں سے مغلوب ہو کر معاصی کا ارتکاب کرے گا ، اس کا ٹھکانا دوزخ ہو گا ، اور اللہ کا جو بندہ اللہ کی فرمانبرداری کی مشقتوں کو برداشت کرے گا ، اور خواہشات والی ”خوشگوار اور لذیذ“ زندگی کے بجائے احکام الہٰی کی اطاعت والی مجاہدہ کی زندگی گزارے گا ، وہ جنت میں اپنا مقام حاصل کر لے گا۔
غالباً حدیث کا اصل مقصد اور اس میں ہمارے لئے خاص سبق یہ ہے کہ نفسانی خواہشات جو بظاہر بڑی لذیذ اور بڑی مرغوب ہیں ۔ ہم جان لیں کہ ان کا انجام دوزخ کا دردناک عذاب ہے ، جس کا ایک لمحہ زندگی بھر کے عیشوں کو بھلادے گا ، اور احکامِ الہٰی کی پابندی والی زندگی جس میں ہمارے نفسوں کو گرانی اور سختی محسوس ہوتی ہے اس کا انجام اور منتہی جنت ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عیش و راحت کے وہ سامان ہیں جن کی دنیا کے کسی انسان کو ہوا بھی نہیں لگی ہے ۔
Add new comment