غدیر خم سے متعلق آیت میں اللہ کی طرف سے تاکیدیں

Mon, 08/20/2018 - 10:36

خلاصہ: کوئی بات جتنی زیادہ تاکیدوں کی حامل ہوگی سننے والے کے لئے اس کی اہمیت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی۔ کبھی انسان اہم بات کرنے کے لئے تاکید کرتا ہے اور کبھی رب العالمین اہمیت سے بھرپور بات قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ غدیر خم کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے متعلق آیت کا جملہ جملہ اہمیت سے چھلک رہا ہے۔

غدیر خم سے متعلق آیت میں اللہ کی طرف سے تاکیدیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غدیر خم کے توحیدی، ولائی، تاریخی اور اعتقادی عظیم واقعہ سے متعلق آیت یہ ہے: "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ"۔ [سورہ مائدہ، آیت 67]
"اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا"۔ (ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب)
اس آیت کے معانی میں غور کرتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت انتہائی اہم بات بتا رہی ہے، کیونکہ اس آیت میں کئی تاکیدیں ذکر ہوئی ہیں:
۱۔ یہ آیت "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ" کے خطاب سے شروع ہوئی ہے۔ یہ خطاب اس بات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے جس بات کی خاطر پروردگار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جملہ سے خطاب فرمایا ہے۔
۲۔ لفظ "بَلِّغْ" آیت میں پائی جانے والی بات کے "خاص" ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ:
اولاً: یہ لفظ پورے قرآن میں صرف ایک بار ذکر ہوا ہے کہ جو اسی آیت میں ہے۔
ثانیاً: راغب کے کہنے کے مطابق، لفظ "بَلِّغْ"، لفظ "اَبْلَغْ" سے زیادہ تاکید کا حامل ہے، اس لیے کہ اگرچہ لفظ "اَبْلَغْ" بھی قرآن کریم میں صرف ایک بار ذکر ہوا ہے (سورہ توبہ، آیت 6 میں)، لیکن شاید "بَلِّغْ" میں تاکید کے علاوہ تکرار بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی یہ بات اس قدر اہم ہے کہ اسے لوگوں تک ضرور پہنچائیں اور اسے لوگوں کے لئے دہرائیں۔
۳۔ "وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ" کا جملہ، اس آیت کی اہمیت پر تیسرا گواہ ہے۔ جس پیغام کو پہنچانے کی رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ذمہ داری سونپی گئی تھی، رسالت و نبوت کی بنیاد اور ستون ہے، کیونکہ اگر آنحضرتؐؐ اس کو لوگوں تک نہ پہنچائیں تو گویا اپنی نبوت کو انجام نہیں دیا۔
۴۔ جو اللہ تعالی نے اس آیت میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی جان کو محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے اور امکانی خطروں سے حفاظت کرنے کا وعدہ دیا ہے، اس آیت کے مطلب کی اہمیت اور بلندی کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس تحفظ کی خبر سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری اس قدر اہم اور انجام پر اثرانداز ہے کہ آپؐ کی جان کا خطرہ تھا اور لوگوں کی طرف سے مختلف ردعمل کا امکان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: آیات ولایت در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 76