خلاصہ: کام چھوٹا ہو یا بڑا اللہ کی مدد کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا ہر کام میں اللہ کی مدد کی ضررت ہے، بنابریں ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے ہونی چاہیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان، اللہ تعالی کی عدم معرفت اور توحید افعالی کو نہ پہچاننے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ اگر کام بڑا ہو تو اللہ کی مدد کی ضرورت ہے اور اگر کام چھوٹا ہو تو میں خود ہی کرلوں گا، جبکہ اس بات سے غافل ہے کہ آنکھ جھپکنے کے لئے بھی اللہ کی مدد کی ضرورت ہے اور جب تک پلکوں کو اللہ کی طرف سے اجازت نہ ملے، وہ ہل ہی نہیں سکتیں۔ یہ مثال ہے، ورنہ اس سے زیادہ باریک کام یا بڑے کام بھی اللہ کے اذن سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لہذا انسان تب تک کوئی حرکت و سکون نہیں کرسکتا جب تک پروردگار عالم کا ارادہ جاری نہ ہو۔ ہماری نظر میں کام چھوٹا یا بڑا شمار ہوتا ہے، ورنہ اللہ کے لئے سب کام برابر ہیں۔ اگر انسان گہری نظر سے دیکھے تو اس بات کا ادراک کرلے گا کہ جب سب کام اللہ کی مدد سے وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے سب کاموں کو اللہ کے نام سے شروع کریں، کیونکہ کام کے وقوع پذیر ہونے میں اصل، اللہ کا ارادہ ہے۔ جب انسان بسم اللہ پڑھ کر کام کو شروع کرتا ہے تو اس عقیدہ کا اظہار کرتا ہے کہ میں قائل ہوں کہ اللہ کا ارادہ اس کام میں بنیادی کردار کا حامل ہے اور اللہ ہی نے کام کو انجام تک پہنچانا ہے لہذا میں اللہ مدد مانگتا ہوں۔ اسی لیے روایت میں ہے کہ جو کام اللہ کے نام سے شروع نہ ہو وہ ابتر اور ناقص ہے۔ جب انسان اس بات کا قائل نہیں کہ اللہ کا ارادہ اس کام میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے تو وہ کام کیسے پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔بسم اللہ کے بغیر شروع کرنے والا شخص سمجھتا ہے کہ اب کیونکہ سب وسائل فراہم ہیں تو میں یہ کام کرلوں گا، جبکہ وہ اس بات سے غافل ہے کہ یہ سب اسباب بھی اللہ تعالی نے فراہم کیے ہیں اور اگر وہ ذات کام کو تکمیل تک پہنچانا نہ چاہے تو ایک سبب کو بھی کم کردے تو کام مکمل نہیں ہوپائے گا، چاہے وہ سبب چھوٹا ہو یا بڑا۔اور اگر انسان وسیع نظر سے دیکھے تو اس حقیقت کا ادراک کرلے گا کہ ہر سبب کی فراہمی کے لئے اللہ کے ارادہ کی ضرورت ہے، ایسا نہیں کہ کچھ اسباب خود بخود فراہم ہیں اور ایک دو سبب جو کم ہیں، صرف وہاں اللہ کی مدد اور اسے یاد کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ سبب کو پیدا کرنے والا، سبب کو اپنی منزل تک پہنچانے والا، اس سبب کو دوسرے سبب سے ملانے والا، اس سبب کو دوسرے سب اسباب سے منسلک کرنے والا، اس سبب میں تاثیر ڈالنے والا، ان اسباب سے فائدہ حاصل کرنے کی طاقت، ذہنیت اور خواہش کو انسان میں پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔
اب روایات کی روشنی میں اس حقیقت کی جستجو کرتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کتنے باریک کاموں کو شامل ہوتی ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے منقول ہے: "قولوا عِندَ افتِتاحِ كُلِّ أَمرٍ صَغيرٍ أو عَظيمٍ: بِسمِ اللّهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ؛ أَىْ أَستَعينُ عَلى هذَا الأَمرِ بِاللّهِ الَّذى لا يَحِقُّ العِبادَةُ لِغَيرِهِ"، "ہر چھوٹے یا بڑے کام کی ابتدا میں کہو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یعنی اس کام پر مدد مانگتا ہوں اللہ سے جس کے علاوہ عبادت کا کوئی حقدار نہیں"۔ [توحيد صدوق: ص 232]
نیز حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: "لا تَدَعْ بِسمِ اللّهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ و إن كانَ بَعدَهُ شِعرٌ"، "بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہ چھوڑو اگرچہ اس کے بعد کوئی شعر ہو"۔ [كافى، ج 2، ص 672، ح 1]
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ارشاد ہے: "اَلتَّسْميَةُ مِفْتاحُ الْوُضوءِ و مِفْتاحُ كُلِّ شَيءٍ"، "بسم اللہ وضو کی کنجی اور ہر چیز کی کنجی ہے"۔ [مستدرك الوسائل ج1، ص 323]
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے مروی ہے: "إذا تَوَضَّأَ أحَدُكُم اَوْ أكَلَ أو شَرِبَ أو لَبِسَ ثَوْباً و كُلُّ شَىءٍ یَصْنَعُ يَنبَغى أن يُسَمِّى عَلَيهِ فَإنْ ھُوَ لَم يَفعَل كانَ الشَّيطانُ فيهِ شریكاً"، " جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے یا کھائے یا پیئے یا کپڑے پہنے اور جو کام بھی کرے تو اسے چاہیے کہ اس پر بسم اللہ پڑھے تو اگر ایسا نہ کرے تو شیطان اس میں شریک ہوجائے گا"۔ [مستدرك الوسائل، ج۱، ص۳۲۰ ]
.......................
حوالہ:
[توحيد، شیخ صدوق، الناشر: جماعة المدرّسين في الحوزة العلمية]
[الکافی، ثقۃ الاسلام کلینی، ناشر: دار الكتب الاسلامية]
[مستدرك الوسائل، محدث نوری، الناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم]
Add new comment