خلاصہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعض فقہی احکام عام ہیں اور بعض خاص، عام سے مراد مختلف مقامات پر خیال رکھنا چاہیے اور خاص سے مراد یہ ہے کہ صرف سے متعلق ہیں۔ اس مضمون میں نماز سے متعلق احکام بتائے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جیسے فجر اور مغرب و عشاء کی نماز مَردوں کو اونچی پڑھنی چاہیے، اسی طرح ان کی بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اونچی پڑھنی چاہیے۔ [توضیح المسائل ۱۳ مرجع، مسئلہ ۹۹۲]
مردوں کے لئے مستحب ہے کہ نماز ظہر و عصر کی پہلی اور دوسری رکعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچا پڑھیں۔ [توضیح المسائل ۱۳ مرجع، مسئلہ ۱۰۱۷]
نماز احتیاط میں (سورہ الحمد کے بعد) سورہ اور قنوت نہیں ہے اور اس کی نیت کو زبان پرنہیں لانا چاہیے اور سورہ الحمد کو آہستہ پڑھنا چاہیے اور بنابر احتیاط واجب (آیت اللہ سیستانی: بنابر احتیاط مستحب) اس کی بسم اللہ بھی آہستہ کہی جائے۔ [توضیح المسائل ۱۳ مرجع، مسئلہ ۱۲۱۶]
آیت اللہ امام خمینی (علیہ الرحمہ): سورہ کی بسم اللہ شروع کرتے ہوئے واجب ہے کہ مقرر کرے کہ کس سورہ کی بسم اللہ پڑھنا چاہ رہا ہے، تو اگر اس نے مقرر کرلیا اور پھر اس کا قصد یہ ہوگیا کہ کوئی اور سورہ پڑھے تو واجب ہے کہ بسم اللہ کو اس سورہ کی نیت سے دہرائے جسے پڑھنا چاہ رہا ہے اور اگر بسم اللہ کو کسی سورہ کی نیت سے پڑھا لیکن بھول گیا کہ وہ سورہ کون سی تھی تو واجب ہے کہ بسم اللہ کو دوبارہ اس سورہ کی نیت سے پڑھے جسے مقرر کرے گا۔ [تحریر الوسیلہ، مسائل قرائت و ذکر، مسئلہ ۷]
کیا نماز میں ہر سورہ کے لئے بسم اللہ سے پہلے اسی سورہ کی نیت کرنی چاہیے اور اس کے بعد اس کی بسم اللہ کو اس کی نیت سے کہا جائے؟
آیت اللہ خامنہ ای: ضروری نہیں ہے۔ [استفتائات جدید، قرائت و احکام آن]۔
آیت اللہ سیستانی: بسم اللہ سے پہلے سورہ کو مقرر کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر بسم اللہ کو کسی سورہ کی نیت سے پڑھا اور پھر کوئی اور سورہ پڑھنا چاہے تو بنابر احتیاط واجب بسم اللہ کو دہرائے۔ [منہاج، مسئلہ ۶۰۳]
Add new comment