عبادت کی شکلیں

Wed, 12/20/2017 - 16:24

امام علی علیہ السلام کی نظر میں عبادت ایسے کرنی چاہیئے جو ذوق و شوق کے ساتھ ہو۔

عبادت

امام علی علیہ السلام عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا:”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَہْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[نہج البلاغہ،حکمت ۲۳۷] ”کچھ لوگ خدا کی عبادت، انعام کے لالچ میں کرتے ہیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ہیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔
اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلی قسم: تاجروں کی عبادت\ فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ہیں، امام فرماتے ہیں یہ حقیقی عبادت نہیں ہے  بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ہم و غم فقط نفع اور انعام ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نہیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رہا ہوتا ہے۔
دوسری قسم: غلاموں کی عبادت\”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَہْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔امام فرماتے ہیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ہیں یہ بھی حقیقی عبادت نہیں ہے  بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نہیں ہوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نہیں ہے  بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رہا ہے۔
تیسری قسم: حقیقی عبادت\ فرمایا:”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔امام فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ہیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے ۔ چونکہ یہاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ہوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کہا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔
نکتہ: ایسا نہیں ہے کہ پہلی دوقسم کی عبادت بے کار ہے اور اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امام علیہ السلام مراتب عبادت کو بیان فرمانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی پہلی دوقسم کی عبادت بجالاتا ہے تو اُس کو اس عبادت کا ثواب ضرور ملے گا۔ فقط اعلیٰ مرتبہ کی عبادت سے وہ شخص محروم رہ جاتا ہے۔ چونکہ بیان ہوا اعلیٰ عبادت تیسری قسم کی عبادت ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 55