خلاصہ: شیطان کو دور بھگانے کے لئے فقط استغفر اللہ کہنا کافی نہیں ہے بلکہ عملی اعتبار سے قلب کو بھی پاک کرنا ضروری ہے۔
’’ استغفر اللہ ‘‘ یہ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں : ’’ خدا میری مغفرت فرما ‘‘ یا ’’ میں اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ‘‘ وغیرہ۔ روایات میں کثرت کے ساتھ اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ اس لفظ کا ورد کرنے سے شیطان، انسان سے دور ہوتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف اس لفظ کا ورد کرلینے سے، اس لفظ کی تسبیح پڑھ لینے سے شیطان ہم سے دور ہوجائے گا؟
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ : بالکل نہیں صرف اس لفظ کا ورد کرلینے سے شیطان ہم سے دور نہیں ہوسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس لفظ کو اظہار شرمندگی کے لئے رکھا لیکن شرمندگی کا ازالہ اسی وقت ہوگا جب اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔
شیطان کو دور بھگانے کے لئے ضروری ہے اس کی پسندیدہ چیزوں کو دور پھینک دیں، مثال کے طور پرﺍﮔﺮ ایک کتا بھوکا ہو اور ہمارے پاس اس کے لئے غذا فراہم ہو، مثلا ایک گوشت کا ٹکڑا۔۔۔۔ اب ہم اس کو زبان سے دھتکارتے رہیں۔ کیا وہ بھوکا کتا ہم سے دور ہوگا؟ ڈنڈا اٹھائیں پھر بھی کوئی فائدہ نہیں، وہ بھوکا ہے اور اس کی آنکھوں میں کھانا ہے اور بس،لیکن اگر اس کے مطلب کی چیز ہمارے پاس نہ ہو تو۔۔۔۔۔۔آئے گا چلا جائے گا۔
اسی طرح ہمارے پاس شیطان کے مطلب کی چیز ہمارا قلب ہے،اپنے قلب میں جھانک کر دیکھیں، کون سا لقمہ تر موجود ہے،( ﻣﺎﻝ، ﺯﺭ، ﺯﯾﻮﺭ سے محبت، ﺷﻬﻮﺕ، کنجوسی، کینہ، ﺣﺴﺩ... ) اگر ہے تو بس اس کا ہونا بھی طے ہے۔۔۔۔اب ہم کہتے رہیں : "ﺍﻋﻮﺫﺑﺎﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺸﯿﻄﺎﻥ ﺍﻟﺮﺟﯿﻢ "... کیا فائدہ؟ہاں اگر پہلے اسکے مطلب کی چیز کو خود سے دور کردیا، اﯾﮏ مرتبہ استغفار کیا۔ فرار کرتا ہوا نظر آئے گا۔
یعنی استغفرالله کہنا اسی وقت اثر دکھائے گا جب اس دعا کے قبول ہونے کی شرطیں بھی فراہم کردی جائیں۔
Add new comment