خلاصہ:اس دعا کو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے امام زمانہؑ کی غیبت کے زمانے میں پڑھنے کی تاکید کی ہے۔
یہ دور, امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا دورہے، اس دور کے پرآشوب ہونے، مشکلات اور طرح طرح کے شبہات اور گمراہ کرنے والے نظریات اور تباہ کن اعتقادات کے عوج کا دور ہونے کے سلسلہ میں روایتوں میں بہت کچھ بیان ہوا ہے۔
کیونکہ ہمارے امامؑ، ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں لہذا اس خطرناک ماحول میں اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا اور ظاہری طور پر ان کی پناہ میں رہنا بہت ہی مشکل امر ہے۔ اس بات کو ہر شیعہ بخوبی محسوس کرتا ہے۔
زمانۂ غیبت میں ان پریشانیوں سے بچنے اور ایمان کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے معصومیں علیہم السلام نے بہت سی دعاؤں کا سہارا لینے کو کہا ہے انھیں میں سے ایک وہ دعا ہے جسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب زرارہ کو تعلیم فرمائی تاکہ انکے شیعہ، امام زمانہؑ کی غیبت اور اپنی آزمائش و امتحان کے سخت موقع پر اس دعا کو پڑھیں، وہ دعا یہ ہے:
اَللّهُمَّ عَرِّفْنى نَفْسَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى نَفْسَكَ لَمْ اَعْرِف نَبِيَّكَ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى حُجَّتَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دينى.(1)
ترجمہ: بارالٰہا؛ تو مجھے اپنی معرفت(شناخت) عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے نبی کی معرفت حاصل نہ ہوگی .خدایا ! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے حجت کی معرفت حاصل نہ ہوگی۔ میرے اللہ: تومجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تونے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہیں عطا کی تو میں اپنے دین ہی سے گمراہ ہوجاوٴوں گا۔
اس دعا کے ذریعہ چند اہم نکتوں تک رسائی ہوتی ہے جیسے:
۱۔اس بات کی طرف توجہ دینا چاہئے کہ بنیادی طور پر پہچنوانا اور شناخت کروانا، خدا کا کام ہے، اب چاہے یہ کام اپنی مخلوقات کے ذریعہ کرے یا پھر قلم وحی کے ذریعہ۔
۲۔ کسی کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اپنی عقل، علم اور وجود کی وسعت سے اوپر کی شئ کی شناخت حاصل کر سکے اگرچہ تمام چیزیں عیاں اور ظاہر ہوں مگر یہ کہ خدا چاہے۔
۳۔ نور، خود ذاتی طور پر روشن اور ظاہر ہوتا ہے، وہ اپنی نورانیت اور روشنی سےدوسری چیزوں کی شناخت کرواتا ہے، کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو نور کی شناخت کروائے اور اسے ظاہر کرے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ «اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض» ( خدا، آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے)(2)۔
پس دعا یہ کرنا چاہئے کہ پہلے خدا اپنی معرفت عطا کرے کیوں کہ خدا ہی حقیقی عظیم نور ہے اور کوئی ایسی شئ نہیں جو خدا کے اوپر اپنی روشنی ڈالے اور اسے پہچنوائے یا ظاہر کرے۔ مگر خدا کو نہیں پہچانا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ خدا خود ہی اپنی شناخت اور معرفت کو عقل، فطرت، خلقت اور وحی کے ذریعہ لوگوں کے لئے فراہم کرے۔
۴۔ نبی، خدا کے خلیفہ ہیں اور حجت(امام)، نبی کے جانشین ہیں تو جب تک اس ذات کی معرفت حاصل نہ ہو جس کے یہ حضرات، خلیفہ اور جانشین ہیں، اس وقت تک اس ذات کے خلیفہ اور جانشین کی عظمت اوراہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
ان تمام مقدمات کے ذریعہ یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ جب تک خدا اپنی معرفت عطا نہ کرے تب تک ہم اس کے رسول کی شناخت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک رسول کو نہیں پہچانیں گے، اس وقت تک رسول کے جانشین کی معرفت کو حاصل کرنا اور اس پر ایمان رکھنا آسان نہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس انداز میں دعا کرنے کی نصیحت دی۔ ہم سب کو اس دور میں اس دعا کے ذریعہ اپنے زمانے کے امام کی شناخت اور ان پر ایمان اور اعتقاد کے ذریعہ ثابت قدم رہنے کے لئے دعا کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔اصول کافی، ج ۱، ص ۳۳۷، اسکے علاوہ مفاتیح الجنان میں بھی یہ دعا موجود ہے۔
2 ۔ سورۂ نور آیت ۳۵۔
Add new comment