چکیده: اس مقالہ میں وقف کی اہمیت کو قرآن کی روشنی بیان کیا گیا ہے نیز ان آیات کا ذکر کیا گیا ہے جو وقف پر دلالت کرتی ہیں البتہ قرآن مجید میں وقف کا لفظ صراحت کے ساتھ تو نہیں آیا لیکن اس کے لئے صدقہ، خیر، نیکی، قرض الحسنہ، تعاون، عمل صالح، باقیات الصالحات، ایثار، انفاق اور احسان جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔
وقف کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:
وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔مسلمانوں نے ہر دور اور ہر دیار میں اس کارخیر اور فلاحی پروگرام کو رواج دیا ہے۔وقف صرف محتاجوں اور مفلسوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ public worksسب کے لیے اس میں امیر وغریب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔
اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اسلامی تاریخ کے ہردور میں غریبوں اورمسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے ،انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے ،مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے ،مریضوں اور پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اہل علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔
قرآن کی نگاہ میں اموال وقف کرکے نا صرف انسان اپنی جاویدانگی حاصل کرتا ہے بلکہ اس نیک اور باخلوص عمل کے ذریعے سے وہ ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کر کے خدا کی خوشنودی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں وقف کا لفظ صراحت کے ساتھ تو نہیں آیا لیکن اس کے لئے صدقہ، خیر، نیکی، قرض الحسنہ، تعاون، عمل صالح، باقیات الصالحات، ایثار، انفاق اور احسان جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ البتہ مذکورہ تمام عناوین ایک لحاظ سے وقف کہلا سکتے ہیں کیونکہ وقف صدقہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی نیکی، ایثار، تعاون، خیر، انفاق اورباقیات الصالحات بھی ہے۔
قرآن مجید میں وقف کے بدلے میں بے شمار ثواب کے بیان کے علاوہ اس کے انفرادی اور اجتماعی آثار بھی بیان ہوئے ہیں۔
1:چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہےمَثَلُ الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ في سَبيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ في كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضاعِفُ لِمَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ ۔
"جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔"[1]
2: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَميعاً إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدير۔
’’اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم سب جہاں بھی رہوگے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا کہ وہ ہر شے پر قادر ہے‘‘ ۔[2]
3: يَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ وَ الْيَتامى وَ الْمَساكينِ وَ ابْنِ السَّبيلِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ۔
’’پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدین قرابت داروں، ایتام، مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور تم میں جو بھی کارخیر کرے گا خدا اسے خوب جانتا ہے‘‘۔[3]
4: وَ الَّذينَ في أَمْوالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُوم، لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ،وَ الَّذينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ، وَ الَّذينَ هُمْ مِنْ عَذابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ
’’ اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے ، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے ، اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں، اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔‘‘[4]
5: وَ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ الْعِقاب
’’نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے‘‘ ۔[5]
6: وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ أَجْرٌ عَظيم
’’اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے‘‘۔[6]
7: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَ ما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليم
’’تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہِ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے‘‘۔[7]
8: وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُون
’’اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں۔‘‘[8]
9: الْمالُ وَ الْبَنُونَ زينَةُ الْحَياةِ الدُّنْيا وَ الْباقِياتُ الصَّالِحاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَواباً وَ خَيْرٌ أَمَلاً
’’مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں پروردگار کے نزدیک ثواب اور امید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں۔‘‘[9]
اس آیہ کی تفسیرمیں مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اس آیت میں " باقیات صالحات " سے مراد چاہے اعمال صالح ہوں یا جو بھی نیک عمل ہو ، وقف ان باقیات صالحات کے مصادیق میں سے ایک ہے۔کیونکہ ائمہؑ کے فرامین اوران کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ عملِ صالح کا مکمل مصداق وقف ہے بالخصوص ان روایات کے مطابق جن میں وقف کو قیامت کے دن نجات کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔[10]
10: وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَ اسْتَغْفِرُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم؛
’’اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی بھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاؤ گے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے ۔‘‘[11]
اس آیت میں بھی " خیر" اور " قرض حسنہ" سے مراد وقف ہے کیونکہ خیر یعنی ہر اچھا کام اور واضح ہے کہ وقف سے اچھا کام اور کوئی نہیں۔ اسی طرح قرض حسنہ بھی وقف کے مصادیق میں سے ہے۔[12]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] البقرہ ۲۶۱۔
[2] البقرہ ۱۴۸۔
[3] البقرہ ۲۱۵۔
[4] سورہ معارج 24-27
[5] سورہ مائدہ/ 2
[6] سورہ مائدہ/9
[7] سوره آل عمران / 92
[8] سورہ نور/55
[9] سورہ کہف/ 46
[10] تفسیر نمونہ، ج۶،ص 170
[11] سورہ مزمل/ 20
[12] تفسیر المیزان، ج ۲۰، ۱۲۱
Add new comment