خلاصہ: خداوند عالم کے اوامر میں سے ایک امر، خدا کی اطاعت میں رزوہ کا رکھنا ہے اور خدا کا ذکر اور شکر کس طرح کرنا چاہئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللّٰھُمَّ قَوِّنِی فِیہِ عَلَی إِقامَةِ أَمْرِکَ وَأَذِقْنِی فِیہِ حَلاوَةَ ذِکْرِکَ وَأَوْزِعْنِی فِیہِ لِاَداءِ شُکْرِکَ بِکَرَمِکَ وَاحْفَظْنِی فِیہِ بِحِفْظِکَ وَسَتْرِکَ یَا أَبْصَرَ النَّاظِرِینَ[۱]
اے معبود! آج کے دن مجھے قوت دے کہ تیرے حکم کی تعمیل کروں اس میں مجھے اپنے ذکر کی مٹھاس کا مزہ عطا کرآج کے دن اپنے کرم سے مجھے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق دے مجھے اپنی نگہداری اور پردہ پوشی کی حفاظت میں رکھ اے دیکھنے والوں میں زیادہ دیکھنے والے۔
امام سجاد(علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ کی چوالیسویں دعا میں خداوند عالم کی بارگاہ میں اس طرح مناجات فرما رہے ہیں: «واعنا علي صيامه[۲] روزہ رکھنے کے لئے میری مدد فرما»[۲]۔
ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا خدا کے حکم کی تعمیل کرنا ہے لیکن حقیقی روزہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ انسان اگر اپنے تمام اعضاء اور جوارح کے ساتھ روزہ رکھے تو وہ روزہ حقیقی روزہ ہوتا ہے، اگر خداوند عالم ہماری مدد نہیں کریگا تو ہم کبھی بھی ایسا روزہ نہیں رکھ سکتے، اسی لئے ہم آج کے دن خدا کے سامنے دست بدعا ہیں: «َ اللّٰھُمَّ قَوِّنِی فِیہِ عَلَی إِقامَةِ أَمْرِکَ؛ اے معبود! آج کے دن مجھے قوت دے کہ تیرے حکم کی تعمیل کروں»۔
آج کے دن اس دعا میں دوسری جگہ خدا سے دعا مانگ رہے ہیں کہ مجھے اپنے ذکر کی مٹھاس کا مزہ عطا فرما اور اپنے کرم سے مجھے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اگر انسان نے خدا کے ذکر کی مٹھاس کو نہیں چکھا تو گویا اس نے عبادت کے مفھوم کو ہی نہیں سمجھا اور اگر عبادت کے مفھوم کو نہیں سمجھا تو اسکے اثرات سے بھی محروم رہیگا اور اگر اس نے خدا کے ذکر کی مٹھاس کو چکھا ہے تو خداوند عالم بھی اسکی دعا کو سنتا ہے جب اس مٹھاس کے ساتھ خدا سے کچھ مانگتا ہے تو خدا بھی اسکی دعا کو بہت جلدی قبول کرتا ہےجیسا کہ خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « واذا سالک عبادي عني فاني قريب اجيب دعوه الداع اذا ادعان[سورہ بقرہ آیت:۱۸۶] اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے».
اسی لئے ہم آج کے دن خداوند عالم کی بارگاہ میں درخواست کر رہے ہیں: « وَأَذِقْنِی فِیہِ حَلاوَةَ ذِکْرِکَ؛ مجھے اپنے ذکر کی مٹھاس کا مزہ عطا کر»۔
علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ اہل ذکر وہ لوگ ہیں جو اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشوں کو انجام نہیں دیتے اور پوری طرح سے اپنے آپ کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کردیتے ہیں[۳]۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل ذکر وہ لوگ ہیں جنھوں نے تقوے کو اختیار کیا، جیسا کے خداوند عالم فرما رہا ہے: «وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى و اتقون یا اُولِی الالبَابِ[سورہ بقرہ،آیت:۱۷۱] اپنے لئے زادُ راہ فراہم کرو کہ بہترین زادُ راہ تقویٰ ہے اوراے صاحبانِ عقل! ہم سے ڈرو »۔
اسکے بعد آج کے دن کی دعا میں خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اداء کر رہے ہیں، صرف زبان سے یہ کہتے رہنا کہ اللہ تیرا شکر ہے یہ خدا کا شکر اداء کرنا نہیں ہے بلکہ حقیقی شکر تو وہ ہے کہ جو نعمتیں خداوند عالم نے ہمیں عطا فرمائی ہیں انکو خدا کی اطاعت اور بندگی میں استعمال کریں نہ کہ نافرمانی اور معصیت میں، اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں:« وَأَوْزِعْنِی فِیہِ لِاَداءِ شُکْرِکَ بِکَرَمِکَ؛ آج کے دن اپنے کرم سے مجھے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق دے»۔
جب خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کو اسکی اطاعت میں استعمال کرینگے تو یقینا خداوند عالم ہماری حفاظت کریگا اور ہمارے عیوب کو دوسروں سے پوشیدہ رکھیگا، اسی لئے ہم خدا سے دعا کر رہے ہیں:« وَاحْفَظْنِی فِیہِ بِحِفْظِکَ وَسَتْرِکَ یَا أَبْصَرَ النَّاظِرِینَ؛ مجھے اپنی پناہ اور پردہ پوشی کی حفاظت میں رکھ، اے دیکھنے والوں میں زیادہ دیکھنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۳۔
[۲]۔صحیفه سجادیه،دعا44، انتشارات دار العرفان، ۱۳۸۸ش،بند6،ص۱۶۷.
[۳]۔ محمد ابن حسین شریف الرضی، نھج البلاغہ، ھجرت، ۱۴۰۴ق،ص۳۴۳۔
Add new comment