خلاصہ: اگر ہمیشہ کے لئے ذلت اور خواری سے بچنا ہے تو ضروری ہے کے شیطان کی پیروی نہ کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللّٰھُمَّ لاَ تَخْذُلْنِی فِیہِ لِتَعَرُّضِ مَعْصِیَتِکَ وَلاَ تَضْرِبْنِی بِسِیاطِ نَقِمَتِکَ وَزَحْزِحْنِی فِیہِ مِنْ مُوجِباتِ سَخَطِکَ، بِمَنِّکَ وَأَیادِیکَ یَا مُنْتَہی رَغْبَةِ الرَّاغِبِینَ[۱].
اے معبود! آج کے دن مجھے چھوڑ نہ دے کہ تیری نا فرمانی میں لگ جاؤں اور نہ مجھے اپنے غضب کا تازیانہ مار آج کے دن مجھے اپنے احسان و نعمت سے مجھے اپنی ناراضی کے کاموں سے بچائے رکھ اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید گاہ۔
ہر انسان اپنے گناہ کی وجہ سے ایک نہ ایک دن ذلیل و خوار ہوکر رہیگا کیونکہ گناہ کرنا یعنی خدا کی مخالفت کرنا، خدا جس چیز کا حکم دے رہا ہے اسکو انجام نہ دینا ہے، یہ تو خداوند عالم کا لطف و کرم ہے کہ خداوند عالم گناہ کرنے والے پر جلدی عذاب کو نازل نہیں کرتا بلکہ اسکے برخلاف اگر کوئی بندہ گناہ کرنے کے بعد معافی طلب کرتا ہے تو اسے معاف بھی کردیتا ہے، جیسا کہ دعاء ابوحمزہ ثمالی میں ہم پرھتے ہیں: « انت الهی وسع فضلا و اعظم حلما من ان تقایسنی بفعلی و خطیئتی و فالعفو، العفو، العفو[۲] اے میرے خدا تو اس سے وسیع فضل والا اوراس سے عظیم علم والا ہے کہ میرے فعل اور گناہ کامجھ کو بدلہ دے اے میرے سردار مجھ کو معاف کردے معاف کردےمعاف کردے»۔
لیکن خدا کی یہ وسیع رحمت اس بات کی طرف ترغیب نہیں دلاتی کہ ہم گناہ کو انجام دیں، جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « فَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَهٍ واسِعَهٍ وَ لا یُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمینَ[سورہ انعام، آیت۱۴۷] پھر اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو کہہ دیجئے کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے لیکن اس کا عذاب مجرمین سے ٹالا بھی نہیں جاسکتا ہے»۔
اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم خدا کی نافرمانی نہ کریں اور شیطان کی اطاعت نہ کریں کیونکہ اگر شیطان کی اطاعت کرینگے تو ایک دن ذلیل اور خوار ہوکر رہینگے، اسی لئے آج کے دن خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہیں:« اَللّٰھُمَّ لاَ تَخْذُلْنِی فِیہِ لِتَعَرُّضِ مَعْصِیَتِکَ؛ اے معبود! آج کے دن مجھے چھوڑ نہ دے کہ تیری نا فرمانی میں لگ جاؤں»۔
اس بات کا ہم کو یقین ہونا چایئے کہ اگر ہم کسی بھی گناہ کو انجام دینگے تو اس میں خدا کا کچھ بھی نقصان ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اسکو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم اسکے محتاج ہیں، اللہ کا عذاب اس لئے ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنی اصلاح کے لئے قدم اٹھائے اور انسانیت کے اعلی درجوں تک پہونچے، اس بات کی طرف ہم کو ہمشیہ متوجہ رہنا چاہئے کہ خداوند عالم نے ہمیں اسکی نافرمانی کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ: « وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون[سورہ ذاریات، آیت۵۶] اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے»، خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ ہم اسکی نافرمانی کرتے ہیں جو ہر چیز پر قادر ہے پھر بھی اسکا رحم و کرم ہے کہ اس نے ہم پر عذاب کو نازل نہیں کیا، اسی لئے ہم آج کے دن دعا کررہے ہیں: « وَلاَ تَضْرِبْنِی بِسِیاطِ نَقِمَتِکَ؛ اور مجھے اپنے غضب کا تازیانہ، نہ مار»۔
وہ کون لوگ ہیں جس پر خداوند عالم غضب نازل کرتا ہے، وہ لوگ وہ ہیں جو شیطان کی اطاعت کرتے ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرمارہا ہے: « لعنه الله و قال لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا[سورہ نساء،آیت:۱۱۸] جس پر خدا کی لعنت ہے اور اس نے خدا سے بھی کہہ دیا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصّہ ضرور لے لوں گا»۔ پس جو کوئی شیطان کی اطاعت اور پیروی کرتا ہے اور خدا کی نافرمانی کرتا ہے، خدا کے غضب کا مستحق قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے جیسا کہ خداوند عالم فرما رہا ہے: « أُولئِکَ مَأْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ لا یَجِدُونَ عَنْها مَحِیصاً[سورہ نساء،آیت:۱۲۱] یہی وہ لوگ ہیں جن کا انجام جہّنم ہے اور وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ہیں»، اسی لئے ہم آج کے دن خداوند متعال سے دعا مانگ رہے ہیں: « َزَحْزِحْنِی فِیہِ مِنْ مُوجِباتِ سَخَطِکَ، بِمَنِّکَ وَأَیادِیکَ یَا مُنْتَہی رَغْبَةِ الرَّاغِبِینَ؛ آج کے دن مجھے اپنے احسان و نعمت سے مجھے اپنی ناراضی کے کاموں سے بچائے رکھ اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید گاہ»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۳۔
[۲]۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، انصاریان پبلیکیشنز، ص۳۴۱۔
Add new comment