خلاصہ: انسان کو اگر چاہتا ہے کہ خدا کے مقرب بندوں میں اپنا نام درج کروائے تو اسکے لئےضروری ہے کہ تقوی اختیار کرے، اور تقوی کا ایک جز خدا پر توکّل کرنا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَ، وَاجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْفائِزِینَ لَدَیْکَ، وَاجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ إِلَیْکَ، بِإِحْسانِکَ یَا غایَةَ الطَّالِبِینَ.[۱]
خدایا مجھ کو اس میں اپنے اوپر توکل کرنے والوں میں قراردے، اور مجھ کو اس میں اپنی بارگاہ میں کامیاب ہونے والوں میں قرار دے، اور مجھ کو اس میں اپنے دربار میں مقرب لوگوں میں قرار دے، اپنے احسان سے اے طلب کرنے والوں کا مقصد۔
انسان, زندگی کی مشکلات و حوادث کو خود دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا, اسی لئے اسے چاہئے کہ خدا کو اپنا وکیل قراردے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت اور کوشش کرتا رہے بلکہ جہاں کسی کام کو خود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو وہاں بھی موٴثر حقیقی، خدا ہی کو مانے، کیونکہ خدا پر توکل کرنے میں خود انسان کی ہی سعادت ہے، جیسا کہ حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « مَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْهِ كَفَاهُ الْأُمُور[۲] جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے، خدا اسکے کاموں کے لئے کافی ہے»۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے سوال کیا کہ توکّل کے معنی کیا ہے، جبرئیل نے کہا: توکّل کے معنی یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے کہ فائدہ اور نقصان، لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہیں، اور ضروری ہے کہ لوگوں سے ناامید ہوجائے، اگر بندہ معرفت کے اس درجہ پر پہونچ جائے کہ سوائے خدا کی مرضی کے کوئی کام انجام نہ دے اور کسی سے امید لگاکر نہ بیٹھے، اور کسی سے نہ ڈرے، یہی توکل ہے۔[۳]
خداوند عالم بھی توکل کرنے والے کو پسند کرتا ہے، اسی لئے ہم آج کے دن خداوند عالم سے دعا کر رہے ہیں: « اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَ؛ خدایا مجھ کو اس میں اپنے اوپر توکل کرنے والوں میں قراردے»۔
وہ لوگ کامیاب ہیں جنکو خداوند عالم نے انکی اطاعت کی بناء پر اپنی رحمت میں شامل کیا اور عذاب کو ان سے دور کیا، جیسا کہ خداوند عالم فرما رہا ہے: « مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ(سورہ انعام، آیت:۱۶) اس دن جس پر سے عذاب ٹال دیا جائے اس پر خدا نے بڑا رحم کیا اور یہ ایک کھلی ہوئی کامیابی ہے»، یقینا وہ لوگ جو خدا کی نافرنانی نہیں کرتے اور اسکی اطاعت کرتے ہیں خدا ان سے راضی ہوتا ہے، جیسا کہ خدا خود فرما رہا ہے: « رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[سورہ مائدہ، آیت:۱۱۹] خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے»، یہ کامیابی صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جنھوں نے تقوی اختیار کیا اور صر ف اور صرف اللہ کی اطاعت کی، اسی لئے آج کے دن ہم خدا کی بارگاہ میں دعا کر رہے ہیں: «وَاجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْفائِزِینَ لَدَیْکَ؛ اور مجھ کو اس میں اپنی بارگاہ میں کامیاب ہونے والوں میں قرار دے»۔
اگر مومن چاہتا ہے کہ راہ خدا اور صراط مستقیم کا سفر طے کرے تو اس کے لئے لازم ہے کہ تقوی اختیار کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ خوشنودی خدا اور نورانیت الہی سے مستفید ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ معنویت کے اعلی مراحل بھی طے کر سکتا ہے۔ جس شخص کے پاس تقوی ہے وہی شخص خدا کے نزدیک ہے، جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے: « إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ[سورہ حجرات، آیت:۱۳] تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے»، ہماری دعا ہے خدا سے کہ اے خدا ہم کو تقوی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم تقوے کے ذریعہ تیرے مقرب بندوں میں اپنا نام لکھوا سکیں، اسی لئے آج کے دن ہم خدا سے دعا کر رہے ہیں:« وَاجْعَلْنِی فِیہِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ إِلَیْکَ، بِإِحْسانِکَ یَا غایَةَ الطَّالِبِینَ؛ اور مجھ کو اس میں اپنے دربار میں مقرب لوگوں میں قرار دے، اپنے احسان سے اے طلب کرنے والوں کا مقصد»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۳۔
[۲]۔ محمد بن محمد شعيري، جامع الأخبار(للشعيري)، مطبعة حيدرية - نجف، ج۱، ص۱۱۷.
[۳]۔ « سَأَلَ النَّبِيُّ ص عَنْ جَبْرَئِيلَ مَا التَّوَكُّلُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ الْعِلْمُ بِأَنَّ الْمَخْلُوقَ لَا يَضُرُّ وَ لَا يَنْفَعُ وَ لَا يُعْطِي وَ لَا يَمْنَعُ وَ اسْتِعْمَالُ الْيَأْسِ مِنَ الْخَلْقِ فَإِذَا كَانَ الْعَبْدُ كَذَلِكَ لَمْ يَعْمَلْ لِأَحَدٍ سِوَى اللَّهِ وَ لَمْ يَرْجُ وَ لَمْ يَخَفْ سِوَى اللَّهِ وَ لَمْ يَطْمَعْ فِي أَحَدٍ سِوَى اللَّهِ فَهَذَا هُوَ التَّوَكُّلُ»۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج ۶۸، ص۱۳۸۔
Add new comment