نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے نجران کے عیسائیوں کو اسلام اختیار کرنے کے لئے جو نامہ لکھا تھا اس کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کے بعد وہ لوگ جو رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھہ سوال اور جواب کے بعد ان لوگوں نے جو مباہلہ کی بات کی، اس  کو بیان کیا گیا ہے۔

نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     ہجرت کا نواں سال تھا، مکہ معظمہ اور طائف فتح ہو چکا تھا۔ یمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے دائرے میں آچکے تھے، حجاز اور یمن کے درمیاں واقع نجران نامی علاقہ تھا جہاں عیسائی مقیم تھے اور شمالی آفریقہ اور قیصر روم کی عیسائی حکومتیں ان نجرانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہی تھیں، شاید اسی وجہ سے ان میں توحید کے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن ان پر رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مہربان ہوئے اور آپ نے نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دی، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس دعوت پر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔
     نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہن کر مدینہ منورہ پہنچا اور مسجد النبی میں داخل ہوا، ییغمبر اسلام نے نجران سے آئے ہوئے وفد کے بنسبت بے رخی ظاہر کی، یہ بات کارواں کے لئے ناگوار گزری کیونکہ پہلے دعوت دی اور اب بے رخی دکھا رہیں ہیں! آخر کیوں؟۔
     حضرت علی(علیہ السلام) نے عیسائیوں سے کہا کہ آپ فاخرانہ لباس، تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، معمولی لباس میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوں، آپ کا استقبال ہوگا،
     اب کاروان معمولی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا اور میر کارواں ابوحارثہ سے گفتگو شروع کی:
ابوحارثہ: آپکا خط موصول ہوا، مشتاقانہ طور پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلم): جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین، اسلام کو قبول کریں۔
ابوحارثہ: اگر آپ ایک خدا پر ایمان لانے کو اسلام کہتے ہیں تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
پغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): اگر آپ حقیقت میں ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو عیسی(علیہ السلام) کو کیوں خدا مانتے ہو؟۔
ابوحارثہ: اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں جیسے: حضرت عیسی( علیہ السلام ) مردوں کو زندہ کرتے تھے، اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔
پغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): آپ نے عیسی( علیہ السلام) کے جن معجرات کا ذکر کیا ہے وہ سب صحیح ہیں لیکن یہ سب خدائے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اسی لئے عیسی(علیہ السلام) کی عبادت کرنے کے بجائے ان کےخدا کی عبادت کرنی چاہئے۔
پادری"ابوحارثہ" یہ جواب سن کر خاموش ہوا، اس دوران کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل(عاقب) نے اس خاموشی کو توڑا۔
عاقب: عیسی(علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ انکی والدہ مریم(علیہا سلام) نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔
پیغمر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی: «إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ[ سورۂ آل عمران، آیت:۵۹] عیسٰی( علیہ السّلام) کی مثال اللہ کے نزدیک آدم( علیہ السّلام) جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا ہوجا اور وہ ہوگیا »۔
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری " ابو حارثہ "کو تک رہے تھے اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں تھے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھے تھے۔
    آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے، خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہو کر جھوٹوں پر عذاب کی درخواست کریں۔ اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:«فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ[سورۂ آل عمران، آیت۶۱] پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں»۔
     دوسرے دن جب عیسائیوں نے رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) اور امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے بڑے پادری نے کہا اگر مجھے روم کی حکومت کا خوف نہ ہوتا تو میں ابھی مسلمان ہوجاتا، اس نے کہا کہ ان کے ساتھ کسی بھی صورت میں مصالحت کرلو۔[۱]۔

نتیجہ:
آج بھی اگر ہم رسول کے حقیقی جانشنین کی اس طرح اتباع کریں جس طرح اتباع کرنے کا حق ہے تو یقینا ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آئیگا۔
     اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ مں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین(علیہم السلام) کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ محمد ابن محمد مفید، الارشاد للمفید، (ترجمہ رسولی محلاتی) ، اسلامیہ ۱۴۱۳، ج۱، ص ۱۵۴۔.

 

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
12 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 91