اربعین کے سفر کے اخلاق

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: کیونکہ تمام معصومین(علیہم السلام) نے اپنی تمام زندگی میں اخلاق کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں، اسی لئے ایک زائر کو بھی معصومین(علیہم السلام) کے ان اخلاق کو اپنانا چاہئے، اسی لئے اس مضمون میں ان اخلاق کو بیان کیا گیا ہے جس کی رعایت ہر زائر کو کرنا چاہئے۔

اربعین کے سفر کے اخلاق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     چہلم کی زیارت کے ذریعہ ہمیں اسلامی اخلاق کی بنیاد پر ایک ثقافت کو وجود میں لانا چاہئے، زیارت کے ذریعہ معصومین(علیہم السلام) کے اخلاق، لوگوں کو بتانا چاہئے کیونکہ خود معصوم نے فرمایا ہے: لوگوں کو اپنے اعمال کے ذریعہ اپنی جانب بلاؤ، اسی مقصد کی خاطر یہاں پر بعض اخلاق اسلامی کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم اربعین کے موقع پر ان کی رعایت کریں اور ساری دنیا کو اخلاق اسلامی کے ذریعہ اسلام کی دعوت دیں۔

الف: وسعت قلب
     جس سفر میں ہزاروں لوگ ہوں اس میں یہ بات طبیعی طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ اس میں مشکلات کا سامنہ کرنا ہوگا، اسی لئے ضروری ہے کہ ہم ان سختیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو پہلے سے آمادہ کرلیں، اگر مشکلات ہوں تو صبر اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں جس کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ‏ فَإِنَّهُ قَلَّ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ إِلَّا أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُم‏[۱]اگر تم صبر کرنے والے نہیں ہو تو اپنے آپ کو صبر کرنے پر مجبور کرو کیونکہ جو اپنے آپ کو کسی قوم کے شبیہ کرتا ہے وہ اسی کی طرح کا ہوجاتا ہے».

ب: دوسروں کو اذیت نہ دیں
     کیونکہ اربعین کے موقع پر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے، آرام کرنے کے لئے جگہکم ہوتی ہے، اسی لئے اگر ایسی جگہ پر ہوں جہاں پر لوگ آرام کر رہے ہوں تو لوگوں کو گفتگو یا دوسری چیزوں کے ذریعہ پریشان نہ کریں جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرمارہے ہیں: « مَنْ‏ آذَى‏ مُؤْمِناً فَقَدْ آذَانِي‏ وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَل‏[۲] جو کوئی کسی مؤمن کو اذیت دے گویا اس نے مجھے اذیت دی او جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی».

ج: زیادہ کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا
     اگر چہ عراق کے سخاوت مند مؤمنین دل و جان سے افتخار کے ساتھ زائروں کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں اور زائروں کے لئے انواع اور اقسام کی غذاؤوں کو فراہم کرتے ہیں لیکن زائروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اعتبار سے غذا حاصل کریں تاکہ اسراف نہ ہو اور پرخوری بھی نہ ہو کیونکہ معنوی سفر پر پیٹ کا بھرا ہوا ہونا اس کے لئے رکاوٹ بنتا ہے جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: « لَا تُمِيتُوا الْقُلُوبَ‏ بِكَثْرَةِ الطَّعَامِ‏ وَ الشَّرَابِ فَإِنَّ الْقُلُوبَ تَمُوتُ كَالزُّرُوعِ إِذَا كَثُرَ عَلَيْهَا الْمَاء[۳] زیادہ کھانے اور پینے کے ذریعہ اپنے دلوں کو مردہ مت بناؤ کیونکہ زیادہ کھانے سے دل مردہ ہوجاتے ہیں جس طرح زیادہ پانی سے زراعت».

د: زیادہ بات کرنے سے پرہیز کرنا
     زیادہ بات کرنے سے پرہیز کریں تاکہ بیکار گفتگو کے ذریعہ لوگوں کی دل آذاری نہ ہو جس کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: « مَنْ‏ كَثُرَ كَلَامُهُ‏ كَثُرَ خَطَؤُهُ‏ وَ مَنْ كَثُرَ خَطَؤُهُ قَلَّ حَيَاؤُهُ وَ مَنْ قَلَّ حَيَاؤُهُ قَلَّ وَرَعُهُ وَ مَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ وَ مَنْ مَاتَ قَلْبُهُ دَخَلَ النَّار[۴] جو کوئی زیادہ بات کرتا ہے اسکی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاء کم ہوجاتی ہے اور جس کی حیاء کم ہوجاتی ہے اسکا تقوی کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقوی کم ہو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اس کا ٹھکانہ جھنم ہے».
     زیادہ بات نہ کرنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہمیشہ صلوات پڑھتے رہیں، عاشورا کے حادثوں کے بارے میں غور اور فکر کرتے رہیں تاکہ بیہودہ کلام ہماری زبان پر نہ آئے۔

ه: ایثار کی رعایت
     عاشورا ایثار اور فداکاری کا نمونہ ہے ہم کو بھی عاشورا کے صدقہ میں اپنے اندر ایثار اور فداکاری کو پیدا کرنا چاہئے اور اس سفر میں اس کی رعایت کرنی چاہئے، جس کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرمارہا ہے: « وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون[سورۂ حشر، آیت:۹] اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو اور جسے بھی اس کے نفس کی حرص سے بچالیا جائے وہی لوگ نجات پانے والے ہیں ».

و: نظافت کی رعایت
     تمام زائرین کو چاہئے کے وہ اس سفر میں اخلاق کی رعایت کریں جس کے بارے میں امام رضا(علیہ السلام) نے فرمایا: «مِنْ أَخْلَاقِ الْأَنْبِيَاءِ التَّنَظُّفُ[۵] نظافت انبیاء کے اخلاق میں سے ہے».
     امید ہے کہ ان نکات کی رعایت کے ذریعہ ہمارا یہ معنوی سفر یادگار ہو اور ہم اس سفر میں امام (علیہ السام) کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:                                                             
[۱]۔محمد باقر مجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي،  ج۶۸، ص۴۰۵، ۱۴۰۲ ق.
[۲]۔ گذشتہ حوالہ، ج۷۲، ص۱۵۰۔
[۳]۔ گذشتہ حوالہ، ج۶۳، ص۳۳۱۔
[۴]۔ محمد بن حسن حر عاملى، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة،مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، ج۱۲،ص۱۸۷، ۱۴۰۹ق.
[۵]۔ بحار الأنوار، ج۱۱، ص۶۶۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 40