زیارت اربعین قیام سیدالشھداء کی تفسیر

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: زیارت اربعین حقیقت میں امام حسین (علیہ السلام ) کی عظیم انقلابی تحریک کی تفسیر ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم زیارت اربعین کی تلاوت کے ساتھ قیام کربلا کے اہداف و مقاصد کو بھی سامنے رکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔

زیارت اربعین قیام سیدالشھداء کی تفسیر

اربعین یا چالیس ایک ایسا عدد ہے جو بڑی خصوصیتوں کاحامل ہے مثلا زیادہ تر انبیاء چالیس سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے، موسیٰ اور خدا کی خصوصی ملاقات چالیس شب تک قرار پائی، نماز شب میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ چالیس مومنین کے لئے دعا کی جائے، ہمسایوں کے احکام میں چالیس گھر تک کو شامل کیا گیا ہے، لکھا گیا ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد چالیس دن تک زمین وآسمان خون کے آنسو روتے رہے(1)بہر حال ہمارا مقصد عدد چالیس کی اہمیت بیان کرنانہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد ایک ایسی حیات بخش شئ کی فضیلت بیان کرنا ہے جو اسی عدد کے ذریعہ لوگوں میں مشہور ہے اور وہ زیارت اربعین امام حسین ہے۔

اہمیت زیارت اربعین

امام حسن عسکری فرماتے ہیں: پانچ چیزیں مومن اور شیعوں کی علامت ہیں

۱۔۵۱ رکعت نماز (نماز یومیہ و نوافل اور نماز شب)

۲۔زیارت اربعین امام حسین(علیہ السلام)

۳۔داہنے ہاتھ میں انگشتری پہننا

۴۔خاک پرسجدہ کرنا

۵۔ بلند آواز سے بسم اﷲالرحمن الرحیم کہنا۔(2)

زیارت اربعین کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ مومن کی صفات سے ہے بلکہ اس روایت کے مطابق چونکہ زیارت اربعین واجب اور مستحب نمازوں کی صف میں قرار پاتی ہے، چنانچہ بعض روایات کے مطابق جس طرح نماز ستون دین وشریعت ہے،  اسی طرح زیارت اربعین وسانحہ کربلا کی یاد کو زندہ رکھنا بھی دین کی بقا کا باعث ہے۔

رسول خدا کے فرمان کے مطابق دوچیزیں نبوت و رسالت کا نچوڑ قرار پائی ہیں؛ ۱۔قرآن ۲۔عترت؛ انی تارک فیکم الثقلین کتاب ﷲ و عترتی(3)۔ چنانچہ کتاب الھٰی کا نچوڑ دین الھٰی ہے کہ جس کا ستون نماز ہے اور عترت پیامبر کا خلاصہ زیارت اربعین ہے جو کہ ستون ولایت ہے (البتہ اہم یہ ہے ہم کہ سمجھیں کہ نماز و زیارت کس طرح انسان کو متدین بناتی ہیں)

اگر ہم بغور زیارت اربعین کے متن پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیارت اربعین میں قیام امام حسین(علیہ السلام) کا مقصد وہی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رسالت کا ہدف اور مقصد تھا۔ چنانچہ قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے مطابق دوچیزیں انبیاء الٰہی کا مقصد ہیں:

۱۔ تعلیم علم وحکمت ۲۔ تزکیہ نفوس

بعبارت دیگر یعنی لوگوں کو عالم اور عاقل بنانا، انبیاء کا اصلی مقصد ہے تاکہ لوگ اچھائیوں کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور ضلالت و گمراہی کی دنیا سے باہر آ سکیں جیسا کہ حضرت علی(علیہ السلام) نے بھی نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا: فھداھم بہ من الضلالۃ انقذھم بمکانہ من الجھالۃ۔(4) یعنی خدانے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھوں لوگوں کو عالم اور عاقل بنایا چنانچہ امام حسین(علیہ السلام) نے بھی جو کہ سیرت نبوی کے حامل اور حسین منی وانا من الحسین(5) کے مصداق حقیقی تھے، لوگوں کو عالم وعادل وعاقل بنانے میں اپنی جان ومال کی بازی لگادی اور مقصد رسالت کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لہٰذا زیارت اربعین میں عبارت موجود ہے: وبذل مھجتہ فیک لیستنقذعبادت من الجہالۃوحیرۃالضلالۃ۔(6) یعنی اپنے خون کو خدا کی راہ میں نثار کر دیا صرف اس لئے تاکہ بندگان خدا کو جہالت اور نادانی کی لامحدود وادی سے باہر نکال سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) کامل الزیارات، جعفر ابن قولویہ قمی ص88 ح 246

(2) مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی 715

(3) صحیح مسلم ج2ص1873

(4) نہج البلاغہ ترجمہ محمد دشتی (رح) خطبہ 1 ص 24 

(5) بحار الانوار،ج 43 ص 261

(6) مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی 715

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49