خلاصہ: کیوں ہم نعمت کے چلے جانے سے مأیوس ہوتے ہیں اور کسی نعمت کے ملنے پر خوشی کا اظھار کرتے ہیں حالانکہ خدا کی دی ہوئی تمام نعمتیں ہمارے لئے صرف ایک امانت ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں اور ایک دن ہم سے واپس لی چائیگی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس دنیا میں جو چیزیں ہمارے ساتھ پیش آتی ہیں ان کو کس طرح سے دیکھیں یہ ہماری فکر سے وابستہ ہے کیونکہ ہم جس طرح اس کام یا چیز کے بارے میں فکر کرینگے اسی طرح اس کا ردّعمل ظاہر ہوگا، مثال کے طور پر جو نعمتیں ہمیں عطاء کی گئی ہیں اگر ہم ان کو خدا کی طرف سے ایک امانت سمجھیں تو نہ اس کے ملنے پر ہمیں خوشی ہوگی اور نہ اس کے جانے پر ہمیں افسوس ہوگا کیونکہ ہم یہ سوچینگے کہ یہ خدا کی جانب سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو ہم سے واپس لے لی گئی ہے۔
مثال کے طور پر آپ اپنے ذہن میں ایک بینک(Bank) میں کام کرنے والے ملازم کو تصور کیجئے کے دن بھر میں اس کے ہاتھ میں کتنے پیسے آتے اور جاتے ہیں لیکن وہ نہ ان کے آنے پر خوش ہوتا ہے اور نہ ان کے جانے پر افسوس کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ مال اس کا نہیں ہے، خدا کی دی ہوئی نعمتیں بھی ہمارے لئے ایسی ہی ہیں اگر ہماری فکر اس طرح ہوجائے تو نہ ہمیں اس کے ملنے پر ہمیں خوشی ہوگی اور نہ اس کے جانے پر افسوس ہوگا، اگر ہم سے کسی نعمت کو لےلیا جائے تو ہم صبر کےساتھ اس کو تحمل کرینگے اور اگر ہمیں کوئی نعمت عطا کی گئی تو ہم خدا کا شکر اداء کرتے ہوئے نظر آئینگے کیونکہ ہم سمجھ گئے ہیں کہ جو نعمت ہمیں دی گئی تھی وہ خدا کی جانب سے صرف ایک امانت تھی اور اس کا حقیقی مالک خداوند متعال ہے، اسی بات کو خداوند عالم قرآن مجید میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «لِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [سورۂ مائده، آیت:۱۲۰] اللہ کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے»، اگر ہم اس بات کا اعتراف کرلیں کہ خدا ہی ہر چیز کا حقیقی مالک ہے تو ہمیں زندگی کے کسی بھی موڑ پر پریشانی کا سامنہ کرنا نہیں پڑیگا، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ایک صحابی معاذ بن جبل اپنے فرزند کے انتقال پر بہت زیادہ غمگین ہوگئے تھے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے انہیں ایک خط لکھا جس کا بعض حصہ یہ ہے: «فَقَدْ بَلَغَنى جَزَعُكَ على وَلَدك الّذى قضى اللّه عليه و انّما كان ابنُكَ من مواهِبِ اللّهِ الهَنيئةِ و عَواريهِ المُستَودَعَةِ عندك. فَمَتَّعَكَ اللّهُ بِهِ إلى أَجَلٍ وَ قَبضه لِوَقْتٍ معلومٍ فَإِنّا للّه و انا إليه راجعون[۱] تمھارے بیٹے کے غم میں تمھاری بے تابی کی خبر ملی جسے خدا کے حکم سے موت آگئی، بے شک تمھارا بیٹا خدا کی طرف سے تمھارے لئے ایک تحفہ تھا جسے خدا نے تمھین امانت کے طور پر دیا تھا خدا نے کچھ مدت تک اس کے ذریعہ تمھیں خوش کیا اور اس کے معین وقت پر اسے واپس لے لیا، بے شک ہم خدا کے لئے ہیں اور ہمین خدا کی جانب جانا ہے»، اگر ہمارا اعتقاد اور یقین یہاں تک کہ اپنے اولاد کے بارے میں بھی ایسا ہو جائے کہ ان کو خدا کی جانب سے ایک امانت کی نگاہ سے دیکھیں تو اس نمعت کے چلے جانے پر بھی ہم صبر کا مظاہرہ پیش کرینگے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلیَ أَهْلِهَا[سورۂ نساء، آیت:۵۸] بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو ».
خداوند متعال نعمت کے ذریعہ ہماری تربیت کرنا چاہ رہا ہے کہ جو خدا تمہیں عطاء کرے اس پر راضی ہوجاؤ اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ جس کے بارے میں قرآن کی یہ آیت اشارہ کر رہی ہے: «وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ...[سورۂ احزاب، آیت:۳۶] اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے».
نتیجه:
نعمت کو خدا کی جانب سے ایک تحفہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کبھی بھی کسی نعمت کے چلے جانے پر غمیگین نہیں ہوگا اور اس کے ملنے پر بہت زیادہ خوشی کا اظھار نہیں کریگا، خداوند متعال ہم سب کو اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
________________________________________
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۷۴، ص۱۶۲، ۱۴۰۳ق.
Add new comment