عبادت میں میانہ روی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تنھائی میں بہت زیادہ طولانی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ اور راتوں کو بہت زیادہ عبادتیں کیا کرتے تھے، لیکن جب جماعت کی نماز کے لئے کھڑتے ہوتے تھے تو آپ دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے نماز کو اختصار کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔

عبادت میں میانہ روی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نماز کو بہت زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ وہ نماز سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور فرماتے تھے میرا دل یہ چاہتا ہے کہ میں نماز کو اور زیادہ پڑھوں لیکن نماز پڑھتے وقت اگر آپ کسی بچہ کی آواز سن لیتے تھے تو آپ نماز کو مختصر کردیتے تھے، تاکہ اس بچہ کی ماں جلدی سے بچہ کو خاموش کردے، اس کے علاوہ بھی آپ نماز کے درمیان لوگوں کی رعایت کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو طولانی نمازوں کے ذریعہ کوئی اذیت نہ ہو۔
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کی بارگاہ میں اتنی راز و نیاز کرتے تھے کہ خداوند متعال نے آپ سے فرمایا: «قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا[سورۂ مزمل، آیت:۱،۲،۳] رات کو اٹھو مگر ذرا کم آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو»، اس کے باوجود آپ نماز جماعت میں لوگوں کی رعایت کرتے تھے، عمومی مواقع پر لوگوں کی رعایت کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس وقت ان کی رعایت نہیں کی گئی تو وہ لوگ دین سے متنفر ہوجائیں گے جیسا کہ امام صادق(علیہ السلام) اس واقعہ کے ذریعہ فرمارہے ہیں:
     صدر اسلام کے زمانے میں دو لوگ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ایک مسلمان اور دوسرا عیسائی، اس مسلمان نے عسائی کے سامنے اسلام کی اتنی تعریف کی کہ وہ عیسائی اسلام سے محبت کرنے لگا اور آخر کار وہ مسلمان ہوگیا، جس دن وہ عیسائی مسلمان ہوا اسی رات سحر کے وقت اس کے دروازے پر کسی نے کھٹکھٹایا، وہ عیسائی پریشان ہوگیا اور پوچھا کون ہے؟ باہر سے آواز آئی کہ میں تمھارا مسلمان پڑوسی ہوں، عیسائی نے پوچھا کہ رات کے اس وقت تمھیں مجھسے کیا کام ہے؟ مسلمان نے کہا کہ وضو کرو اور میرے ساتھ مسجد چلو وہاں پر نماز شب اور سحر کی عبادتوں کو انجام دینا ہے۔
     وہ عیسائی جو مسلمان ہوگیا تھا اس مسلمان کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہوگیا اور وہیں پر صبح کی طلوع ہونے تک عبادتوں میں مصرورف رہا۔ اس کے بعد وہ جدید مسلمان اپنے گھر جانے لگا تو مسلمان نے کہا: کہاں جارہے ہو نافلہ پڑھو اور قرآن کی تلاوت کرو! نو مسلمان، نافلہ اور قرآن کو پڑھنے میں مصروف ہوگیا، اس کے بعد جب وہ اپنے گھر جارہا تھا تو مسلمان نے کہا کہ آج روزہ کی نیت کرو کیونکہ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔
     آہستہ آہستہ ظھر کا وقت جب نزدیک ہوگیا تو وہ نو مسلمان گھر جانے لگا تو مسلمان نے کہا تھوڑا صبر کرلو تاکہ ظھر کی نماز جماعت سے اداء کرلیں، اسی طرح مغرب تک اس مسلمان نے نئے مسلمان کو ان چیزوں میں مصروف رکھا اور اس کے بعد وہ لوگ اپنے اپنےگھر واپس ہوگئے۔
     دوسری رات سحر کے وقت اس نئے مسلمان کے دروازے کو کسی نے کھٹکھٹایا، اس نے پوچھا کون ہے؟
     مسلمان نے کہا کہ میں تمھارا مسلمان پڑوسی ہوں، اس لئے آیا ہوں تاکہ تمھیں مسجد لیکر جاؤ۔
     نو مسلمان نے کہا: میں کل رات جب مسجد سے واپس لوٹا، اسی وقت میں نے تمھارے دین کو چھوڑ دیا تھا۔ جاؤ ایک بیکار آدمی کی تلاش کرو جو سارا دن مسجد میں گزار سکے، میں ایک فقیر آدمی ہوں مجھے اپنے بیوی بچوں کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔
     امام صادق(علیہ السلام) نے اس واقعہ سے نتیجہ لیتے ہوئے فرمایا: اس مسلمان نے ایک نئے مسلمان پر اتنی سختی کی کہ اس نے اسلام کو ہی چھوڑ دیا، خبردار تم لوگ، دوسروں پر اس طرح کی سختی نہ کرنا، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے اور ہماری طرح اعتدال کے ساتھ اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو۔
نتیجہ:
    اس واقعہ سے ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ ہمیں کسی بھی کام میں زیادتی نہیں کرنی جاہئے جاہے وہ عبادت ہی کیوں نہ ہو۔
....................................................................
حوالہ:
[۱] وسائل الشیعه، شیخ حر عاملی، ج۱۶، ص۱۶۱، مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، قم، ۱۴۰۹ق۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 18 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 31