قرآن کریم کی ایک تہائی آیتیں توحید کے بارے میں ہیں، اور تمام پیغمبر توحید کا درس دیتے رہے ہیں۔ توحید کے مقابلے میں شرک ہے، شرک کے معنی خدا کے لیے شریک قرار دینا ہیں۔ اور یہ ایسا گناہ ہے جو ناقابل بخشش ہے۔ لہذا توحید اور اس کی قسموں؛ توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی اور توحید عبادی، کو جانیں تاکہ شرک جلی اور شرک خفی میں اپنا دامن آلودہ کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔
ممکن اور محدود موجودات (جیسے ہم لوگ ہیں) میں کبھی کچھ صفات پائے جاتے ہیں اور کبھی نہیں، مثال کے طور پر؛
۔ ذاتی طور پر انسان کے اندر حیات اور زندگی نہیں پائی جاتی جب ان کے اندر روح پھونکی جاتی ہے تو اس وقت وہ ’’حیّ‘‘ ہوتے ہیں اور کچھ سالوں کے بعد دوبارہ مر جاتے ہیں۔
۔ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو کمزور ہوتے ہیں لیکن رشد و نمو پانے کے بعد ’’قوی‘‘ ہو جاتے ہیں۔
۔ جاہل ہوتے ہیں لیکن علم حاصل کرنے کے بعد ’’عالم‘‘ بن جاتے ہیں۔
لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے صفات ہماری ذات سے الگ اور جدا ہیں۔ اس کی وجہ ہماری محدودیت ہے جس کی وجہ سے ہم کبھی ان صفات سے محروم ہوتے ہیں اور کبھی ان کے مالک۔
اسی طرح ان صفات میں سے ہر ایک ہمارے وجود کے اندر ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں ان میں سے بعض صفات کا تعلق ہمارے جسم سے ہوتا ہے اور بعض کا تعلق ہماری روح سے۔
لیکن خداوند عالم نامحدود اور نامرکب ہے۔ لہذا کوئی کمالی صفت اس کی ذات سے باہر نہیں ہے جو کچھ ہے اس کی ذات میں جمع ہے۔ بنابر ایں خداوند عالم کی نامحدود ذات کہ جو کمال مطلق ہے اور اس کا شریک قابل تصور نہیں ہے میں کوئی ایسی صفت نہیں جو اس کی ذات سے باہر قابل تصور ہو۔
اس وضاحت کے ساتھ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ توحید صفاتی یعنی اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کے صفات عین ذات بھی ہیں اور آپس میں ایک بھی اور جس طریقے سے اس کی ذات ازلی اور ابدی ہے اس کی ذاتی صفتیں جیسے علم، قدرت اور حیات، بھی ازلی اور ابدی ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ اس کے صفات اس کی ذات سے الگ ہوں۔
ذات اور صفات کا اتحاد
مولائے کائنات، باب شہر علم، حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں معجزاتی حیرت انگیزی پائی جاتی ہے ان کے کلام کے مقابلے میں خدا کے بارے میں علماء اور مفکرین کی تعریفیں سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہیں۔ توحید صفاتی کی وضاحت میں آپ کا خطبہ جو نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ ہے اپنی مثال آپ ہے آپ نے فرمایا:
"أَوَّلُ الدِّینِ مَعرِفَتُهُ؛ وَکَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدیقُ بِهِ؛ وَکَمَالُ التَّصْدِیقِ بِهِ تَوحِیدُهُ؛ وَکَمَالُ تَوحِیدِهِ الْإِخلاصُ لَهُ؛ وَکَمَالُ الْإِخْلاصِ لَهُ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنهُ، لِشَهَادَةِ کُلِّ صِفَةٍ أَنَّها غَیرُ المَوْصُوفِ، وَشَهَادَةِ کُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَیْرُ الصِّفَةِ، فَمَن وَصَفَ اللهَ سُبحَانَهُ فَقَد قَرَنَهُ، وَ مَن قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ، وَ مَن ثَنَّاهُ فَقَد جَزَّأَهُ، وَمَن جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ...".
’’دین کی ابتداء خدا کی معرفت ہے، اور اس کی معرفت کا کمال اس کے وجود کی تصدیق ہے، اور اس کے وجود کی تصدیق کا کمال اسے یکتا جاننا ہے۔ اور پروردگار کی یکتائی اور احدیت پر عقیدہ کا کمال، اس کی خالص عبادت ہے، اور اس کی عبادت اس وقت خالص ہو گی جب ہر زائد صفت کو اس کی ذات سے انکار کیا جائے، اس لیے کہ ہر صفت اس بات پر گواہ ہے کہ وہ اپنے موصوف سے الگ ہے اور ہر موصوف اس بات پر گواہ ہے کہ وہ اپنی صفت سے الگ ہے، لہذا جو بھی خداوند عالم کو زائد بر ذات صفت سے موصوف کرے گویا اس کو کسی چیز سے ملا دیا اور جس نے اسے کسی چیز سے ملایا اس نے اس کی دوئیت کا گمان کیا اور جو شخص خدا کی دوئیت کا گمان کرے گا گویا اس نے اسے اجزاء میں تقسیم کر دیا اور جو اسے اجزاء میں تقسیم کرے گا گویا اس نے خدا کو پہچانا نہیں۔۔۔‘‘
آسان لفظوں میں اگر ہم تصور کریں کہ مثلا صفت علم اپنے موصوف یعنی خدا سے الگ ہے تو ہم نے خدا کو دو چیزوں میں تصور کیا، اور اگر اسے اس کی صفت سے الگ کر دیں تو اسے تقسیم اور محدود کر دیا۔ جیسے ایک محدود انسان کہ جس کے پاس کبھی علم ہوتا ہے اور کبھی نہیں۔
اسی طریقے سے اگر خدا دو جزء (ذات اور صفت) سے مرکب ہوتو یہ ترکیب اس کے محتاج ہونے کا باعث بنے گی، چونکہ موجود مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے، اور اجزاء کے بغیر ناقص ہوتا ہے، حالانکہ خدا ہر اعتبار سے غنی اور بے نیاز ہے۔
اس لیے خدا کے صفات عین ذات ہیں نہ زائد بر ذات، یعنی اگر ہم کہتے ہیں: خدا عالم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا عین علم ہے جیسا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا قادر اور زندہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی قدرت اور حیات اس کی ذات سے الگ ہیں۔ خدا کے توحید صفاتی کے یہی معنیٰ ہیں۔۔
Add new comment