خداکے وجود پر ویسے تو کئی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں لیکن خود انسان کے اندر ہی اصلی دلیل پوشیده ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کائناتِ ارض وسما اور یہ وجود انسانی دونوں قدرت خدا کی دوکھلی ہوئی کتابیں ہیں جن کا لفظ لفظ اس کے وجود اور اس کی عظمت و جلالت کی گواہی دے رہا ہے، انسان کائنات کے ایک ذرّہ پر بھی نگاہ کرے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ خالق حکیم کے بغیر اس کی تخلیق ممکن نہیں ہے اور اپنے وجود کی ایک سانس پربھی غور کرلے تو اس بات کا یقین کر لے گا کہ کوئی کارساز ذہن ہے جو اس وجود کو چلا رہا ہے اور اسے باقی رکھے ہوئے ہے ورنہ اس عمارت کا بھروسہ ہی کیا ہے جو ہوا پر قائم ہو اور جو ایک ایک سانس سے ہل جائے، یہ رب کائنات کا کرم ہے کہ ایسی عمارت کو سیکڑوں سال اسی شان سے باقی رکھتا ہے، اسلام کا عقیدہ ٔتوحید اگر چہ ایک غیبی عقیدہ ہے لیکن اس کے دلائل اور شواہد ہرگز غیبی نہیں ہیں بلکہ سر تا سر بالکل واضح اور محسوس ہیں جن کے بعد انسان کو غیب کہہ کر نظر انداز کر دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے،اس ضمن میں کیا ہی سادہ اور دلچسپ آیت ہے قرآن مجید کی:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ؛ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے [فصلت٥٣]
گویا اس آیت کی تفسیر امیر المؤمنین(ع) کا یہ کلام ہے جسمیں آپ(ع) نے انسانی وجود کے بارے میں کتنا حسین جملہ ارشاد فرمایا ہے کہ:اعْجَبُوا لِهَذَا الْإِنْسَانِ؛ یَنْظُرُ بِشَحْمٍ، وَ یَتَکَلَّمُ بِلَحْمٍ، وَ یَسْمَعُ بِعَظْمٍ، وَ یَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ؛ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جو گوشت سے بولتا ہے، ہڈی سے سنتا ہے اور چربی سے دیکھتا ہے۔[حکمت ۸ نهج البلاغه]
کیا ایسے اعضاء یعنی گوشت و استخوان کے ٹکڑوں میں ایسی صلاحیت کا پیدا کردینا خالقیت اور مالکیت اور اسکے وجود کی محکم ترین دلیل نہیں ہے، لیکن اگر انسان خود اپنے وجود کی طرف سے بھی غافل ہے تو خدا کی طرف کسی طرح متوجہ ہو گا۔
Add new comment